رپورٹ؛ عمران خان
اسلام آباد:سمندر پارپاکستانیوں سے متعلق وزارت کے ماتحت ادارے ”بیورو آف امیگرنٹس اینڈاورسیز ایمپلائنمنٹ” کے حکام نے اورسیز پاکستانی مزدوروں کے بجائے انسانی اسمگلنگ اور فراڈ میں ملوث کمپنیوں اور ان کے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کرنا شروع کردیا۔ایف آئی اے کوان کمپنیوں کے کیس بھیجنے کے بجائے محکمہ جاتی کارروائی کے نام پر ان کو دبانا اور کمپنی مالکان کوریلیف دیا جانے لگا۔
اطلاعات کے مطابق بیرون ملک جانے والے مزدوروں سے ان کوان کے خاندان کو ہرقسم کے قانونی تحفظ کے وعدوں پر ”بیورو آف امیگرنٹس“ پروٹیکٹر فیسوں کی مد میں سالانہ اوسطاً15ارب روپے کماتا ہے۔تاہم اس کے بدلے میں ملک کے لئے سالانہ 31ارب ڈالرز کا زر مبادلہ بھیج کر” لائف لائن “کی حیثیت رکھنے والے ان اورسیز پاکستانیوں کے لئے وزارت سمندر پاکستانی ،بیورو آف امیگرنٹس اور اورسیز پاکستانی فاﺅنڈیشن کئے گئے وعدوں کے عشر وشیر پر بھی عمل در آمد نہیں کر رہے ۔
معلومات کے مطابق وزارت سمندر پار پاکستانیوں کے تحت بیورو آف امیگرنٹس کا ادارہ 1971میں اس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا کہ ملازمتوں کے لئے مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرکے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے حقوق کا تحفط کیا جاسکے ۔اس ادارے کے تحت ملک بھر کے بڑے شہروں میں 8پروٹیکٹر آفس قائم ہیں جہاں سے بیرون ملک جانے والے شہری اپنے ویزوں اور ورک پرمٹس کے لئے پروٹیکٹرز لگواتے ہیں ۔
ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق 2023سے لے کر اب تک یعنی ڈیڑھ برس کے دوران لگ بھگ 11لاکھ پاکستانی شہری مختلف ممالک میں ورک ویزوں پر ملازمتوں کے لئے بیرون ملک جاچکے ہیں ۔پاکستانی شہریوں کو ملازمتوں پر خلیجی ممالک ،یورپ ،امریکہ اور کینیڈ اور دیگر ممالک میں بھجوانے کے لئے ۔اس وقت سینکڑوں اورسیز ورک پروموٹرز کمپنیاں لائسنس لے کر کام کر رہی ہیں ۔جن کے ایجنٹ کمیشن لے کر شہریوں کے کوائف بنواتے ہیں ۔یہ کمپنیاں جن شہریوں کو بیرون ملک اپنی فیس لے کر بجھواتی ہیں ان کے کوائف یومیہ بنیادوں پر وزارت سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ بیورو آف امیگرنٹس کے ذریعے شیئر کئے جاتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق لاکھوں روپے لے کر شہریوں کو بیرون ملک ملازمتوں پر بھجوانے والی یہ کمپنیاں اور ایجنٹ تحریری معاہدے کرتے ہیں اور جو تنخواہ اور دیگر مراعات ان معاہدوں میں درج ہوتی ہے وہ ملازمت پر جانے والے شہری کو بیرون ملک نہ ملے رتو یہ قوانین کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے ۔اس صورت میں متاثرہ شہری بیورو آف امیگرنٹس کو تحریری درخواست دے کر فراڈ اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرواسکتے ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق شہریوں کی جانب سے 2023کے آغاز سے لے کر اب تک بیرو آف امیگرنٹس کو درجنوں کمپنیوں اور ایجنٹوں کے خلاف مختلف قسم کی 190شکایات درج کروائی ہیں ۔جن پر تحقیقات میں کئی سنگین شکایات اور خلاف ورزیوں پر کمپنیوں کو صرف تنبہ کرکے معاملات نمٹا دئے گئے ۔کچھ کمپنیوں کو شوکاز نوٹس دے کر ان کے جوابات کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔کچھ کے خلاف ابھی تحقیقات جاری ہیں ۔
پچھلے عرصہ کے حوالے سے موصول ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق بیرون ملک مزدوری کرکے سالانہ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ ملک بھینے والے محنت کشوں کے تحفظ کے ذمے دار ادارے میں ہزاروں شکایت میں سے ایجنٹواں کے خلاف صرف 10فیصد شکایات ان کے خلاف کارروائیوں کے لئے ایف آئی اے کو ارسال کی گئیں۔جبکہ 10فیصد ایجنٹ کمپنیوں کو 5000سے 25000کے معمولی جرمانے کرکے چھوڑ دیا گیا جبکہ 80فیصد شکایت پر بیورو آف امیگرنٹس اینڈ اورسیز ایمپلائنٹ کے حکام نے صرف تنبہی نوٹس ارسال کرکے معاملات کو ختم کردیا۔
اس وقت بیرو آف امیگرنٹس کا ادارہ اپنے ان آٹھوں دفاتر کے ذریعے بیرون ملک ملازمتوں پر جانے والے شہریوں سے فیس کی مد میں سالانہ کتنی رقم وصول کررہا ہے ۔یہ اعداد وشمار حیرت انگیز ہیں یعنی اس وقت اورسیز یمپلائنمنٹ پروموٹر ایجنٹ کے ذریعے جانے والے فی شہری سے مجموعی طور پر 22ہزار 200روپے لے کر پروٹیکٹر لگایا جاتا ہے ۔جس میں 15ہزار فیس بشمول 6ہزار پروسس چارجز،4ہزار ویلفیئر فنڈ،ڈھائی ہزار انشورنس فیس،اور 500رجسٹریشن فیس شامل ہوتی ہے ۔اسی طرح براہ راست ورک ویزوں پر جانے والے فی شہری کو 9ہزار 200روپے میں پروٹیکٹر لگا کر دیا جا رہا ہے۔جس میں 4ہزار ویلفیئرفنڈز،ڈھائی ہزار انشورنس فیس اور 500رجسٹریشن فیس شامل ہوتی ہے۔اگر فی شہری اوسطاً15ہزار فیس بھی لگائی جائے تو گزشتہ ڈیڑھ برس میں جانے والے 11لاکھ شہریوں سے اس ادارے نے 17ارب رروپے سے زائد جنریٹ کئے ۔
روزانہ اوسطاً دو ہزار دو لوگ ان دفاتر کا ر±خ کرتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے وسائل خرچ ہوتے ہیں بلکہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث انہیں مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔پورے ملک میں صرف آٹھ دفاتر ہونے کی وجہ سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو طویل سفر بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ امیگریشن قوانین کے مطابق ورک ویزے پر جانے والے شہریوں کو پروٹیکٹوریٹ آف امیگرنٹس کے دفتر میں اپنے پاسپورٹ، ویزے اور ملازمت کے معاہدے کی اصل دستاویزات کے علاوہ ان کی فوٹو کاپیاں اور تصاویر لے کر جانا ہوتا ہے۔ یہاں انہیں پروٹیکٹر کی فیس کے علاوہ ویلفیئر فنڈ اور اوورسیز شناختی کارڈ کی سلپ کی فیس کے ساتھ ہی چالان کی رقم بھی جمع کروانا ہوتی ہے۔
اس تکلیف سے بچنے کے لیے جہاں بیرون ملک جانے والے افراد مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں وہیں پروٹیکٹوریٹ دفاتر کے آس پاس موجود ایجنٹ کبھی بیورو آف امیگرنٹس کے افسران کی ملی بھگت سے بوگس پروٹیکٹرز لگوادیتے ہیں اور بعض کیسوں میں جعلی مہریں لگا کر شہریوں کو جعلی پروٹیکٹر لگا کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف بیرون ملک جانے والے شہری کئی قانونی فوائد سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
ہزاروں روپے کی فیسیں جمع کرواکر پروٹیکٹر لگوانے کے بعد بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کوقانونی طور پر کئیطرح کا تحفظ مل جاتا ہے۔، جس ملک میں ملازمت ہو وہاںکے پاکستانی سفارت خانوں میں موجود متعلقہ اتاشی کے مشن سے اس اورسیز ملازم کو مفت معلومات کا استحقاق مل جاتا ہے۔ جبکہ پاکستانی سفارت خانوں سے آجر اور بھجوانے والی کمپنی کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی زیادتی اور معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں میونٹی ویلفیئر اتاشی سے قانونی معاونت طلب کی جاسکتی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں اس کے خاندان کودرپیش مسائل میں ایک حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ لائف پاکستان کے ذریعے 10 لاکھ روپے پریمیئم تک کی لائف انشورنس بھی دی جاتی ہے۔جبکہ ویلفیئر فنڈزکی ادائیگی کے بعد اوورسیز پاکستانیز فاو¿نڈیشن کی رکنیت مل جاتی ہے۔ جس کے تحت بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات، ہوائی اڈوں پر اوورسیز پاکستانیز فاو¿نڈیشن کے کاﺅنٹرز پر تعینات عملے سے قانونی اور دیگر ضروری رہنمائی اور معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاکستان میں رہائشی اسکیموں میں بھی پلاٹ لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری بھی کی جاسکتی ہے۔اس بنیاد پر ہی اوورسیز پاکستانیز فاو¿نڈیشن سے حادثے اور سانحہ کی صورت میں مالی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے بیرون ملک جانے والے پاکستانی مزدوروں سے سالانہ درجنوں ارب روپے کمانے والے بیرو آف امیگرنٹس ،وزارت سمندر پار پاکستانی اور اورسیز پاکستانیز فاﺅنڈیشن ان لاکھوں مزدوروں کے لئے کئے گئے وعدوں کا عشر عشیر بھی پورا نہیں کر رہے ہیں ۔
ایف آئی اے حکام کا اس ضمن میں موقف ہے کہ ماضی میں شہریوں کی براہ راست درخواستوں پر ان کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکلوں کی ٹیمیں ملک بھر میں قوانین کی خلاف ورزی اور فراڈ میں ملوث اورسیز ورک پروموٹر ایجنٹوں کے خلاف کارروائیاں کرتی تھیں۔ تاہم گزشتہ برسوں میں ورک پروموٹروں کی ایک نمائندہ تنظیم نے بیورو آف امیگرنٹس کے حکام کے ساتھ مل کر ایسے رولز نافذ کروائے جن کے تحت فراڈ میں ملوث اورسیز ورک پروموٹرز ایجنٹوں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے پہلے ایف آئی اے کو بیورو آف امیگرنٹس سے تحریری طور پر آگاہ کرکے ان سے تحریری کمپلین حاصل کرنا ضروری ہے۔ اوراس کے بعد بھی یہ بیورو آف امیگرنٹس کے حکام پر منحصر ہے کہ وہ ایجنٹ اور شکایت کنندہ کے خلاف معاملات طے کرواکر یا۔ انکوائری کرکے خود کیس بند کردیں یا۔
ذرائع کے بقول پاکستان اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن جو کہ ملک بھر میں قائم لائسنس یافتہ کمپنیوں کا مجموعہ ہے اور کمپنیوں کے مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بھی یہ تنظیم پیش پیش رہتی ہے۔ خود گزشتہ عرصے میں ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفیکنگ سرکل میں انسانی اسمگلنگ کے درج ہونے والے 2مقدمات میں اس کا نام آچکا ہے۔