رپورٹ : عمران خان
کراچی: آزاد کشمیر کے کوٹے پر لائسنس حاصل کرکے اربوں روپے مالیت کی چائے کی پتی کراچی اور دیگر شہروں میں فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کی جانب سے اپنے کیس ختم کروانے کے لئے اثر رسوخ کا استعمال شروع کردیا گیا۔
موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق کسٹمز کورٹ کی جانب سے کمپنی مالکان کے حق میں دیا گیا فیصلہ اس وقت متنازع بن کر ایک اسکینڈل کی صورتحال اختیار کرگیا جب ایف بی آر کے کسٹمز انٹیلی جنس کے لئے اٹارنی خالد راجپر نے کسٹم کورٹ کے جج کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ سمیت متعلقہ اداروں کو تحریری خط ارسال کردیا۔دوسری جانب کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے حکام نے کسٹمز کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے کسٹمز کورٹ کے فیصلے کے ایک حصے کو اگلی سماعت تک معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردئے گئے۔
یہ اسکینڈل رواں برس اس وقت سامنے آیا جب کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے ایک خفیہ ادارے کی تحقیقات کے بعد مشترکہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے 6ملوث کمپنیوں کے مالکان اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کے خلاف مقدمات درج کئے ۔اس کے ساتھ ہی اربوں روپے مالیت کی پتی کراچی کے گودام پر چھاپہ مار کر ضبط کرلی ۔
کسٹمز حکام کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے آزاد کشمیر کوٹے پر چائے کی پتی کی در آمد میں اربوں روپے ٹیکس چوری اسکینڈل کی ابتدائی تحقیقات میں 6بڑی کمپنیوں کے ملوث ہونے کے شواہد حاصل کر لئے۔مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے در آمد کی جانے والی ایک ارب 60کروڑ روپے سے زائد مالیت کی سینکڑوں ٹن چائے کی پتی کراچی کے گودام سے بر آمد کرکے مقدمات درج کئے تھے ۔ان کمپنیوں میں میسرز کے ایف فوڈ کمپلیکس، میسرز ایم آئی کے انڈسٹریز، میسرز زیڈ آر ایم انڈسٹریز، میسرز سلام انڈسٹریز اور میسرز انقلاب شامل ہیں۔مذکورہ کمپنیوں کے مالکان کے خلاف منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی تحقیقات آزاد کشمیر کے کوٹے پر پتی در آمد کرنے والی دیگر کئی کمپنیوں تک وسیع کی گئیَ
کسٹمز حکام کے مطابق کالی چائے کی درآمد پر 6فیصد انکم ٹیکس عائدہوتی ہے۔ لیکن آزادکشمیرکے لئے چائے کی درآمدکوحکومت پاکستان نے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیاہے۔ جس سے مذکورہ درآمدکنندگان کی جانب سے جائزفائدہ اٹھاکرقومی خزانے کو اربوں روپے کانقصان پہنچایاگیاہے۔
انہی تحقیقات میں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے عملے کی جانب سے پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے ذریعے کلیئر ہونے کے بعد میسرز کے ایف فوڈزکی جانب سے درآمد کردہ 14 ٹن کالی چائے کے کنٹینر پر نگرانی کی گئی اور اس کنٹینر کو آزاد کشمیر کی طرف جانے کے بجائے بسم اللہ گودام، ہاکس بے روڈ، ماڑی پور کراچی میں اتارا گیا،کسٹمزانٹیلی جنس کراچی کی ٹیم نے گودام کی تلاشی کے نتیجے میں مزید 530 ٹن کالی چائے برآمد ہوئی جو آزاد کشمیر کے لیے میسرز کے ایف فوڈ کمپلیکس، میسرز ایم آئی کے انڈسٹریز، میسرز زیڈ آر ایم انڈسٹریز، میسرز سلام انڈسٹریز اور میسرز انقلاب نے درآمد کی تھی۔
کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے عملے کی جانب سے گودام سے تحویل میں لیے گئے ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی کہ آپریشن کے دوران حراست میں لیے گئے مذکورہ 544 ٹن کے علاوہ ان درآمدکنندگان کی جانب سے درآمد کی گئی 3000 ٹن کالی چائے پہلے ہی کراچی میں فروخت کی جاچکی ہے۔ آزاد کشمیر کے لیے درآمد کی جانے والی چائے اس ایک کھیپ کی مالیت ایک ارب 60کروڑ سے زائد ہے جس پر انکم ٹیکس کے ساتھ کسٹمز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی چوری کی گئی۔
ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیرکوٹہ کے لائسنس کے نام پر اربوں روپے مالیت 4کروڑ کلوگرام سے زائد پتی سالانہ بنیادوں پر پاکستان کی صوبائی مارکیٹوں میں غیرقانونی سپلائی کی جا رہی ہے۔ اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو متعلقہ سرکاری اداروں کی سرپرستی حاصل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔مافیا کی جعلسازی سے قومی خزانے کو سالانہ30ارب روپے سے زائد کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا۔کراچی کی بندرگاہوں پر آنے واپی آزاد کشمیر کے کوٹے کی پتی مناسب ٹریکر سسٹم نے ہونے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں سپلائی کردی جاتی ہے۔اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے ملوث کمپنیوں،ایجنٹوں اور تاجروں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں۔
کسٹمز حکام کے مطابق ان کیسوں میں کسٹمشز ایڈجیوڈی کیشن کلکٹریٹ میں ریکوری کے لئے کیس بھیجا گیا اور کسٹمز کورٹ میں کرمنل پروسس شروع کیا گیا۔تاہم ابھی کسٹم زایڈجیوڈی کیشن نے کمپنیوں پر جرمانوں اور ٹیکس کی ادائیگی کا تعین کرنے کی رپورٹ جاری ہی نہیں کی کہ کسٹمز کورٹ نے گزشتہ دنوں یہ کیس ختم کردینے کا حیرت انگیز فیصلہ جاری کرتے ہوئے کمپنیوں کا ضبط سامان بھی فوری طور پر واپس کرنے کا حکم جاری کردیا۔اس فیصلے پر کسٹمز حکام حیران رہ گئے ۔
کسٹمز کے اٹارنی خالد راجپر کے مطابق کسٹمز کورٹ کے جج صرف مقدمات خارج کرنے کا حکم دے سکتے ہیں ۔لیکن اس میں ریکوری اور سامان کی واپسی کا اختیار کسٹمز کے ایڈجیوڈی کیشن کلکٹریٹ کے پاس ہے۔حالانکہ جس وقت کسٹمز کورٹ میں مقدمات داخل کئے گئے اس وقت کے سابق جج نے ان مقدمات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر مزید ثبوت اور شواہد کی تحقیقاتی رپورٹ عبوری چالان کی صورت میں جمع کروانے کے بعد اس مقدمات کو چلانے کی کارروائی شروع کی گئی تاہم نئے آنے والے جج نے اچانک کمپنیوںکی جانب سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست اپنا فیصلہ جاری کردیا۔یہی نہیں بلکہ کسٹمز کے افسران کو سامان واپس نہ کرنے کی صورت میں گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ بھی جاری کردئے گئے ۔
معلوم ہوا ہے کہ اس اسکینڈل پر مقتدرہ کے خفیہ ادارے نے پہلے تحقیقات کیں اور ثبوت سامنے آنے پر کسٹمز انٹیلی جنس کو کیس بنانے کے لئے کہا گیا اگر یہ کیس اس طرح ختم ہوتے ہیں تو یہ مقتدر ادارے کے لئے بھی سوالیہ نشان ہوگا۔
اسی دوران درآمد کی اس چھان بین میں یہ بھی سامنے آیا کہ آزاد کشمیر کے کوٹے کے لائسنس پر درجنوں ڈیلرز اور کمپنیاں اپنے ایجنٹوں اور متعلقہ سرکاری اداروں میں موجود کرپٹ افسران کی سہولت کاری کے نتیجے میں اربوں روپے کی چائے کی پتی بیرون ملک سے منگوا کر پاکستان کی صوبائی مارکیٹوں میں سپلائی کر رہی ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اس کی در آمد کے لئے بیرون ملک کی جانے والی ادائیگیوں کے لئے زر مبادلہ آزاد کشمیر کی حدود سے بیرون ملک منتقل کرنے کے بجائے پاکستان کے مختلف علاقوں سے بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے۔اس طرح سے ایک جانب اسمگلروں کا یہ نیٹ ورک آزاد کشمیر کوٹے کے لائسنس کو اپنے اربوں روپے کے ناجائز منافع کے لئے استعمال کر رہا ہے تو دوسری جانب قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکس کے ساتھ زر مبادلہ کی مد میں بھی اربوں روپے کا مسلسل نقصان پہنچا یا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے خاموشی سے جاری ہے ۔