عمران خان
کراچی:حوالہ ہنڈی اور کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ٹھو س بنیادوں پر ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک حکام نے مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بڑی کارروائی شروع کردی ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام کی درخواست پر ایف آئی اے حکام نے تمام سرکلوں میں گزشتہ برسوں میں درج ہونے والے ایسے مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔جن میں لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز کا کردار سامنے آیا ہے اور ان مقدمات پر کارروائی عدالتوں میں ابھی تک زیر التواءہیں۔اس ضمن میں ایک مراسلہ ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز سے تمام سرکلوں کے انچارجز کو بھیجا گیا ہے۔
اس کارروئی کے پس منظر میں دو وجوہات ذرائع سے معلوم ہوئی ہیں۔ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے ایسے مقدمات کا ریکارڈ حاصل کرکے حوالہ ہنڈی اور کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیوںکے خلاف عدالتوں میں زیر التواءمقدمات کوترجیحی بنیادوں پر نمٹانا ہے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہیہ ریکارڈ اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج اینڈ پالیسی ڈپارٹمنٹ کو بھیج کر کرنسی کی غیر قانونی خرید وفروخت میں ملوث اے اور بی کیٹگری کی ایکسچینج کمپنیوں اور ان کی برانچوں اور فرنچائز کے لائسنس منسوخ کرنے یا ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے کی کارروائی شروع کی جاسکے۔
اسی ریکارڈ کی روشنی میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایکسچینج کمپنیوں کے لئے جاری کردہ نئے قواعد پر عمل در آمد کیا جائے گا۔اس ریکارڈ کی روشنی میں اسٹیٹ بینک حکام نئی پالیسی کے تحت ماضی میں جرائم میں سرگرم اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کرنے یا ان بی کیٹگری کی کمپنیوں کو اپ گریڈ ہونے کی منظوری دینے کا فیصلہ کریں گے۔ساتھ ہی ایف آئی اے حکام ان کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز کی علیحدہ سے چھان بین کریں گے جس میں ان کے سفری ریکارڈ کے علاوہ اثاثوں کی جانچ پڑتال شامل ہے۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کے نئے قواعد کے مطابق بی کیٹگری کی کمپنیوں کو ختم کیا جارہا ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے کہ وہ تنہائ یا چند کمپنیاں مل کر 50کروڑ کی سرمایہ کاری محفوظ کروائیں اور خود کو ا ے کیٹگری کی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ کروائیں۔جبکہ ایکسچینج کمپنیوں کی فرنچائز کا نظام بھی ختم کرکے برانچ سسسٹم وضح کیا جا رہا ہے تاکہ ایک برانچ میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں سے مرکزی لائسنس رکھنے والی ہیڈ برانچ کے مالکان اور ڈائریکٹرز خود کو بری الذمہ قرار نہ سکیں۔
ذرائع کے بقول ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے جب کسی لائسنس یافتہ کمپنی کی فرنچائز پر چھاپہ مارا گیا تو غیر قانونی کاروبار کو کمپنی مالکان نے فرنچائز کے ڈائریکٹرز کو ذمے دار قرار دے کر خود کو بچا لیا۔تاہم جب فرنچائز سسٹم ختم ہونے کے بعد برانچ سسٹم نافذ ہوگا تو ہیڈ برانچ کے مالکان ہی تمام برانچوں کے ذمے دار ہونگے۔
مراسلے کے مطابق ایسے مقدمات اور نامزد ایکسچینج کمپنیوں کا ریکارڈ جلد ہی طلب کیا گیا ہے تاکہ اس پر فوری کارروائی ہوسکے۔امت کو ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ اس سے قبل بھی ایسی ہی ایک کارروائی گزشتہ عرصہ میں شروع کی گئی تھی جسے بعد ازاں روک دیا گیا تھا تاہم اب دوبارہ اس پر عمل در آمد شروع کردیا گیا ہے۔
اس اقدام میں اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈپارٹمنٹ نے وفاقی وزارت داخلہ کے سیکرٹری کو خط لکھ کر ایف آئی اے سے ملک بھر کی 28کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کی 38برانچوں اور فرنچائز کے خلاف درج ہونے والے مقدمات ،عدالتوں میں پیش کردہ چالان ،تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے تفصیلات طلب کی تھیں۔
ذرائع کے بقول یہ فیصلہ وفاقی وزارت داخلہ ،وزارت خزانہ اور حساس اداروں کی ان رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا۔ جن کے مطابق ملک میں حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا سب سے بڑ ا ذرائع کرنسی ڈیلرز اور کمپنیاں ہیں جن کے ذریعے سیاستدان ،بیوروکریٹس اور تاجر اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرتے رہے ہیں۔
ملک میں ڈالرز کی قیمت میں یک دم اجافے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالرز غائب ہوجانے کے بعدایک اجلاس میں اسٹیٹ بینک ،ایف آئی اے ،ایس ای سی پی ،ایف بی آر او ر حساس ادارے کے نمائندوں کے ساتھ ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی جس میں حکومتی اداروں کی جانب سے بعض ایکسچینج کمپنیوں اور کرنسی ڈیلروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔
ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے درمیا ن ہونے والے ان مراسلوں کے تبادلوں میں ایسی 28کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کی ملک بھر میں قائم38برانچوں اور فرنچائز وں کی فہرست بھی فراہم کی گئیتھی۔ جن کے خلاف ایف آئی اے نے گزشتہ تین سالوں میں مقدمات قائم کئے۔اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی جانب سے لکھے گئے خط میں بتایا گیا تھا کہ ریگو لیٹری اتھارٹی کی حیثیت سے اسٹیٹ بینک کے حکام نے کرنسی کی غیر قانونی خرید وفروخت میں ملوث کمپنیوں اور ڈیلروں کے خلاف 2005سے لے کر2020تک تک کرنسی کے غیر قانونی لین دین کے حوالے سے 807درخواستیں ایف آئی اے کو دیں۔ جبکہ ایف آئی اے کے ساتھ مل کر ایک سروے بھی کیا۔
اسی دوران 423ایسے افراد کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جوکہ کرنسی کے غیر قانونی کاروبار سے منسلک تھے۔دستاویزات کے مطابق جن ایکسچینج کمپنیوں اور ان کی فرنچائز اور برانچوں کے حوالے سے ریکارڈ طلب کیا گیا۔ ان میں عاصمہ ایکسچینج کمپنی ،یونائیٹڈ ایکسچینج کمپنی ،اے اے ایکسچینج کمپنی ،میگا کرنسی ایکسچینج ،ایچ اینڈ ایچ ایکسچینج کمپنی کی فرنچائز گلوبل انٹر پرائزرز،مارس ایکسچینج کمپنی ،گوہر ایکسچینج کمپنی ،گلیکسی ایکسچینج کمپنی ،رائل انٹر نیشنل ایکسچینج کمپنی ،مرتضیٰ کمپنی کارروان ایکسچینج کمپنی ،کارروان ایکسچینج کمپنی کے تین فرنچائزیں ،پاکستان کرنسی ایکسچینج کمپنی ،نوبل ایکسچینج کمپنی کی فرنچائز یونیک ایکسچینج کمپنی ،ڈی ڈی ایکسچینج کمپنی کی 2برانچیں ،اسکائی لنک انٹر نیشنل ایکسچینج کمپنی ،السہارا ایکسچینج کمپنی کی فرنچائز لکی ایکسچینج کمپنی ،یونیورسل ایکسچینج کمپنی اور کیپٹل ایکسچینج کمپنی شامل ہیں۔
اس وقت ملک بھر میں 55سے زائد ایکسچینج کمپنیوں کے پاس اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ ”اے “ اور ”بی “ کیٹگری کے لائسنس موجود ہیں جوکہ اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں اور یہی ڈپارٹمنٹ ایکسچینج کمپنیوں کا ریگولیٹری اتھارٹی بھی ہے جس کی ذمے داری ہے کہ لائسنس یافتہ کمپنیوں اور ان کی فرنچائزوں اور برانچوں سے ہونے والے کاروبار پر نظر رکھے اور غیر قانونی سرگرمیوں کا سراغ لگا کر اس کی کمپلین ایف آئی اے کو دے اور لائسنس منسوخ کرے ،یہ 55لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں ملک بھر میں اپنے لائسنس کے تحت سینکڑوں فرنچائز ،برانچیں اور کیش آ?ٹ لٹ چلا رہی ہیں۔