عمران خان
کراچی: ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی نے بلوچستان یومیہ کروڑوں روپے کا اسمگلنگ کا سامان کراچی منتقل کرنے والے بڑے ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک کے خلاف مستقل بنیادوں کے لئے حکمت عملی مرتب کرلی ہے ۔جس کے لئے اسمگلنگ میں ملوث انٹر سٹی بس سروسز کمپنیوں کے روٹ پرمٹس، لائسنس منسوخ کروانے سفارشاتی رپورٹ عملی کارروائی کے لئے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز ،سندھ رینجرز اور صوبائی حکومتوں کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔درجنوں انٹر سٹی بسوں کی ٹرانسپورٹیشن سروس کمپنیوں کے مالکان گزشتہ ایک دہائی سے زائد اربوں روپے کا سامان بلوچستان سے کراچی اسمگل کر رہے ہیں اور اس وقت یہ اسمگلنگ کا بڑا منظم نیٹ ورک بن چکا ہے ۔
ذرائع کے مطابق سندھ بلوچستان کے مختلف عناصر کے بے پناہ دباﺅ کے باجود ایسی بسوں کو سامان سمیت تحویل میں لینے کے بعد ان کی کمپنیوں اور مالکان کی فہرست تیار کی جا رہی ہے۔ جن کے خلاف اسمگلنگ کے متعدد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ان کارروائی میں خصوصی طور پر ان بس مالکان کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر ایکشن لیا جا رہا ہے جن میں اسمگلنگ کا سامان چھپانے کے لئے خصوصی خفیہ جگہیں بناکر استعمال کی جا رہی ہیں ۔کیونکہ ان وارداتوں کے لئے بسوں کے مالکان ذمے دار ڈرائیور یا کلینر پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوسکتے ۔ایسے خفیہ خانے بسوں کے مالکان خود ہی ناجائز دولت کمانے کی لالچ میں بنوا کر سمگلروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔
کسٹمز انٹیلی جنس ان رپورٹس پر بھی کارروائی شروع کی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں چھوٹی سوزوکیوں اور کاروں میں سامان اسمگل کرنے والے چھوٹے اسمگلر وں نے اتنی دولت کمائی کہ اب کئی کئی انٹر سٹی بسوں کے وہ خود مالک بن گئے ہیں ۔ایک بس کی قیمت کم سے کم ایک کروڑ اور زیادہ سے زیادہ تین کروڑ تک ہوتی ہے ۔انہیں اسمگلروں نے اپنی انٹر سٹی مسافر بس سروس کمپنیاں رجسٹرڈ کرروا کر بلوچستان کے مختلف شہروں سے کراچی کے روٹ پرمٹ صوبائی حکومتوں میں شامل اپنے سرپرستوں سے حاصل کئے۔سینکڑوں ایسی بسیں موجود ہیں جن میں سے مسافروں کی آدھی سیٹیں نکال کر صرف اسمگلنگ کا سامان رکھنے کی جگہیں بنا کر رکھی گئی ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی نے اسمگلروں کو بڑا مالیاتی نقصان پہنچانے کے لئے انٹر سٹی بسوں ،اڈوں اور گوداموں کے مالکان کو مالیاتی دھچکہ پہنچانے کے لئے اینٹی اسمگلنگ کے ساتھ ہی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کو بھی ہر کارروائی میں شامل کرلیا ہے جس کے تحت اسمگلنگ میں ملوث بسوں اور گوداموں کو مالکان کو واپس دینے کے بجائے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت سرقہ کیا جانے لگا ہے۔
دستاویزات کے مطابق چار روز قبل ڈائریکٹرکسٹمزانٹیلی جنس اینڈانویسٹی گیشن انجینئرحبیب کومصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ کوئٹہ سے کراچی آنے والی بسوں کے ذریعے اسمگل شدہ سامان کی ترسیل کی جاری ہے۔جس پر ای کے موررز ایکسپریس کمپنی کی بس نمبر LXP-3251اور بس نمبر BSC-894 کو روک کراس کی تلاشی کی گئی توبسوں سے بھاری مقدار میںا سمگل شدہ سامان برآمد کیا گیا جس میں سگریٹ، چھالیہ، الیکٹرانکس اشیائاورکپڑا بسوں میں بنائے گئے خفیہ خانوں میں چھپایا گیا۔کسٹمز حکام کے مطابق بسوں سمیت ضبط شدہ سامان کی مالیت 5 کروڑ روپے سے زائد ہے۔کارروائی کے بعد بسوں کے مالکان کی جانب سے کسٹمز حکام پر بعض شخصیات کے ذریعے دباﺅ ڈالا گیا تاہم ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی نے دباﺅ کو ملحوظ خاطر نہ لاتے ہوئے مقدمات درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی ۔نیٹ ورک میں ارباز نامی اہم کردار ملوث پایا گیا ہے جس کے حوالے سے چھان بین کی جا رہی ہے ۔جبکہ ان کارروائیوں میں نئی پالیسی کے تحت مسلسل اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی مسافر بسوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کے لئے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی کارروائی شامل کی جا رہی ہے۔
نئی پالیسی کے تحت ایف بی آر ہیڈ کوارٹر حکام نے ملک بھر میں کسٹم افسران کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 50لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا سامان ضبط کرنے پر ملوث کمپنیوں ،ایجنٹوں ،گودام مالکان اور اسمگلروں کے خلاف لازمی مقدمات درج کریں جبکہ ایک کروڑ روپے سے زائد سامان ملنے کی صورت میں کسٹم افسران مقدمات درج کرنے کے ساتھ ہی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ملوث افراد کی اتنی ہی مالیت کی جائیدادیں اور اثاثے بھی ضبط کرنے کی کارروائی کرنے کے پابند ہونگے
ذرائع کے بقول اانٹر سٹی بسوں کے متعلق یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا تاکہ ان بسوں کے رجسٹریشن نمبر اور ان کے کمپنیوں کے مالکان کی تفصیلات کے ذریعے صوبائی اداروں سے کارروائی پر عمل در آمد کروایا جاسکے۔ ان مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں۔ جن میں مسافروں بسوں سے اسمگلنگ کا سامان ضبط کیا گیا ۔
انٹر سٹی مسافر بسیں چمن کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماہانہ اربوں روپے مالیت کا سامان کراچی منتقل کرنے کا بڑا ذریعہ بنی ہیں ۔ کئی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسیں درجنوں مرتبہ کروڑوں روپے کے اسمگل شدہ سامان کے ساتھ کسٹم انٹیلی جنس کراچی ،اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن اور کسٹم کوئٹہ کے چھاپوں میں پکڑی جاچکی ہیں۔ جن میں ان کے ڈرائیور ،کلینر وغیرہ گرفتار ہوچکے ہیں۔جس کی وجہ سے اس مافیا کی دید ہ دلیری بڑھ چکی ہیں اور اس وقت بدترین معاشی صورتحال میں روزانہ کروڑوں روپے کے سامان کی اسمگلنگ کرکے قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان سے دوچار کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے لگژری سامان کی در آمد پر پابندی کے باجود ایسے غیر ملکی آئٹم کراچی اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں منتقل کئے جا رہے ہیں ۔
امت کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر چمن کوئٹہ ،واشک ،نوشکی، چاغی، تربت،پنجگور اور گوادر سمیت دیگر شہروں سے کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمینل اور سہراب گوٹھ بس اڈوں پر آنے والی درجنوں بسوں میں اسمگل شدہ چھالیہ ،ٹائر ،غیر ملکی کپڑا ،الیکٹرانک کا سامان ،کاسمیٹکس ،غیر ملکی بسکٹ ،ٹافیا،چاکلیٹ ،جیم جیلی ،ایرانی خوردنی تیل ،ادویات سمیت دیگر اشیائے خوردونوش اور ٹن پیک فوڈ کروڑوں روپے کی مالیت میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
معلومات کے کسٹم کے مختلف چھاپوں میں میسرز ای کے موورز، میسرز المحمود ٹرانسپورٹ کمپنی،میسرز السیف ٹرانسپورٹ کمپنی،میسرز الداﺅد ٹرانسپورٹ کمپنی،میرز القادر ٹرانسپورٹ کمپنی ،میسرز المکہ یکسپریس ٹرانسپورٹ کمپنی ،میسرز جے جے مورز ٹرانسپورٹ کمپنی ،میسرز الممتاز ٹرانسپورٹ کمپنی ،میسرز الشعیب ڈائیو ٹرانسپورٹ کمپنی ،میسرز الوحید ڈائیو ٹرانسپورٹ کمپنی سمیت کئی دیگر کمپنیوں کی بسیں درجنوں بار سامان سمیت پکڑی جاچکی ہیں۔