پاکستان شہریوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر در آمد کی جانے والی لگژری الیکٹرک بسیں سپلائی کرنے والی کمپنی اور اس کے کلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کے گھپلے سامنے آنے کے بعد پہلی بار بقاعدہ مقدمہ درج کرنے کے لئے کارروائی شروع کردی گئی ہے ۔مذکورہ کارروائی اس لئے بھی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر نمونے کے طور پر در آمد کی جانے والی چند درجن بسوں میں ہی ان کی مالیت اور نوعیت کی قیمت کے تعین میں گڑ بڑ کرکے بھاری ٹیکس چوری کے الزامات سامنے آگئے ہیں جبکہ مستقبل میں سندھ اور دیگر صوبائی منصوبوں کے لئے اس طرح کی 10ہزار بسیں در آمد کرکے سپلائی کی جانی ہیں ۔اس لئے ایک بار ان کی 100فیصد درست مالیت اور ان پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکس کا تعین کرنا انتہائی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ اربوں روپے کا ناجائز منافع بٹونے کی نیت سے قومی خزانے کو کسی بھی جعلسازی اور سرمایہ کاری کرنے والے عناصر کی جانب سے پہنچائے جانے والے بھاری نقصان سے بچایا جاسکے ۔
اطلاعات میں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے محکمہ کسٹمزکی جانب سے الیکٹرک بسوں کی درآمد پر کی جانے والی ٹیکس چوری کے الزام پرمیسرزکازس مارس ٹرانزٹ( M/s Causis Mass Transit) پاک پرائیوٹ لمیٹڈاورکلیئرنگ ایجنٹ میسرز حارث انٹرپرائز(M/s Haris Enterprises)کمے خلاف ایف آئی آردرج کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔اس ضمن میں کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کے کلکٹر محمد رفیق محسن نے ایف بی آرکو ایک مکتوب ارسال کیاہے جس کی تصدیق کے بعد ڈیوٹی وٹیکسزکی چوری کے الزام پر میسرزکازس مارس ٹرانزٹ پاک پرائیوٹ لمیٹڈاورکلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے گا۔
مذکورہ اسکینڈل پر تحقیقات کا معاملہ گزشتہ برس کے آخر میں اس وقت سامنے آیا تھا جب میسرز کازس ماس ٹرانزٹ پاک پرائیویٹ لمیٹڈ نے گڈز ڈیکلریشن کے ذریعے الیکٹرک بسوں کے 50 یونٹس درآمد کئے تھے۔ جس کی درآمدی قیمت45 ہزار ڈالر ظاہرکرکے کلیئر کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی حساب کو کلیئرنس کے وقت کسٹمز کو ڈیوٹی اور ٹیکس جمع کروائے گئے۔اس معاملے پر جب کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کی ٹیم نے ٹیکس چوری کی اطلاعات پر تحقیقات شروع کیں تو معلوم ہوا کہ ایکسپورٹ جی ڈی کے مطابق الیکٹرک بسوں کی درآمدی ویلیو 45ہزار ڈالرز کے بجائے 2لاکھ ڈالرز سے بھی زائد ہے ۔ الیکٹرک بسوں کی بیرون ملک قیمت اور پاکستان تک ٹرانسپورٹیشن کے اخجارات کے بعد اس کی مالیت کا اندازہ لگانے کے لئے کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کی جانب سے مختلف اندرونی اور بیرون ملک ذرائع سے معلومات حاصل کرکے اس کو ریکوری کیس کا حصہ بنایا گیا ۔
اس ضمن میں کسٹم حکام کا کہناہے کہ ابتدائی طور پر ثبوت اور شواہد سامنے آنے کے بعد ملوث کمپنیوں کے خلاف ٹیکس اور ڈیوٹی ریکوری کے لئے ایک کیس بنا کر کسٹمز ایڈجیوڈی کیشن کلکٹریٹ کو ارسال کیا گیا تھا۔جس میں درآمد کی جانے والی الیکٹرک بسوں پر ڈیوٹی ٹیکسز کی چوری پر درآمد کنندہ اور کلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی اور ایڈجیوڈیکشن کلکٹریٹ نے کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کے بنائے گئے کیس میں تعین کردہ ڈیوٹی ٹیکسز کو درست قرار دیتے ہوئے درآمد کنندہ پر 88 کروڑ کا جرمانہ عائد کیا ۔در آمد کنندہ میسرزکازس مارس ٹرانزٹ پاک پرائیوٹ لمیٹڈکے ساتھ ہی اس کے کلیئرنگ ایجنٹ میسر حارث انٹر پرائزز پر بھی جرمانہ عائد کیا گیا ۔
بھاری ٹیکس چوری کے اس کیس پر درآمد کنندہ نے کسٹمز ایڈجیوڈی کیشن کلکٹریٹ کے اس فیصلے کے خلاف کسٹم اپلیٹ ٹربیونل سے رجوع کیا اورجہاں کسٹم اپلیٹ ٹربیونل نے حیرت انگیز طور پر کچھ سماعتوں کے بعد فیصلہ درآمد کنندہ کمپنیوں کے حق میں دے دیا۔ تاہم محکمہ کسٹمز نے ہائی کورٹ میں تمام تر حقائق بیان کئے جس پر معزز عدالت نے کسٹمز ٹربیونل کے فیصلے کے برعکس کیس بنانے والے ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ایسٹ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ایکسپورٹ جی ڈی کے مطابق کنسائمنٹ کی کلیئرنس کے احکامات جاری کئے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول اس پورے معاملے اور مختلف عدالتی فورمز پر اس دوران 8ماہ سے زائد کا وقت لگ گیا جس کے بعد اب برمد کنندہ کی جانب سے جمع کرائے گئے سیکورٹی ڈپازٹ محکمہ کسٹمز نے ان کیش کرالئے اور انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف بی آر سے درآمد کنندہ اور کلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے ہوئے ایف آئی آر درج کرانے کی استدعا کی ہے۔ کسٹمز حکام نے بتایا کہ ایف بی آر کی تصدیق کے فورا بعد درآمد کنندہ اور کلیئرنگ ایجنٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی جائے گی۔ جبکہ دیگر افراد جو اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
دستاویزات کے مطابق کسٹم ویلیو کے تعین کے لیے یہ معاملہ ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم ویلیوایشن کو بھیجا گیا لیکن اب تک ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایسی 10 ہزار بسیں حکومت سندھ کے ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر صوبائی حکومتوں کے ساتھ 3.6 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت درآمد کی جانی ہیں۔ اس لیے جائز محصولات کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے حقیقی درآمدی قیمت کا پتہ لگانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تجارتی سہولت سے متعلق ڈبلیو ٹی او کے معاہدے کے تحت ممبران ممالک کو معلومات کا تبادلہ کرنے اور درآمد کنندگان کے برآمدی اعلامیے کی تصدیق کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ جہاں ان ویلیوز کے درست یا غلط ہونے کے لئے کئی پیرامیٹرز طے کئے گئے ہیں۔
اس معاملے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکٹرک بسوں کی شفاف در آمد اور سپلائی سندھ سمت پاکستان کے مختلف اداروں کے ماس ٹرانسپورٹیشن کے منصوبوں کے لئے کلیدی کردار رکھتی ہے کیونکہ اس سے شہریوں کو بہتر سفری سہولیات میسر آئیں گے ۔جس میں غیر ملکی گاڑیو ں کی کمپنی کی جانب سے پاکستان میں باقاعدہ میسرزکازس مارس ٹرانزٹ پاک پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے ایک کمپنی رجسٹرڈ کروائی ہے ۔تاہم اربوں روپے کے اس مستقل اور بڑے منصوبے سے بھی بعض بڑے مگرمچھوں نے اپنے لئے ناجائز منافع بٹورنے کا منصوبہ بنالیا ہے جس کے لئے انہوں نے پس پردہ رہ کر مختلف عناصر سے بھاری سرمایہ کاری کروائی ہے ۔