اسرائیل جانے والے پاکستانیوں کے اسکینڈل کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے مزید 5 مقدمات درج کر لئے۔ اسرائیل میں کئی پاکستانیوں کی تاحال رہائش کا انکشاف، سندھ کے بعد پنجاب کے متعدد شہروں میں اسرائیل سے فنڈز منتقلی کا سراغ مل گیا۔ پورے ملک سے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے اسرائیل گئے۔ اسکینڈل میں اب تک درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 10ہوچکی ہے ۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل آنے اور جانے والے پاکستانی افراد کے اسکینڈل کی ایف آئی اے تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ 1980سے وہاں پر موجود پاکستانی جوڑے کے علاوہ حالیہ برسوں میں درجنوں دیگر پاکستانی بھی اسرائیل آتے اور جاتے رہے ہیں ۔جن کے کوائف پہلے سے تحقیقات میں گرفتار ملزمان اور ایف آئی اے امیگریشن کے آئی بی ایم سسٹم سے میچ کرکے تصدیق کرنے کے بعد ایسے 5مزید پاکستانی شہریوں کے خلاف 5مقدمات درج کئے گئے ہیں جوکہ ابھی بھی اسرائیل ہی میں موجود ہیں جبکہ اسرائیلی ایجنٹ اسحاق ماتت کی پاکستانی اہلیہ کو بھی ان مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے جو کہ گزشتہ 4دہائیوں سے اسرائیل میں مقیم ہے اور پاکستان سے کئی شہریوں کو اسرائیل لے کر جانے کا انتظام اپنے شوہر کے ذریعے کرواچکی ہے۔
ذرائع کے بقول رواں برس جولائی کے آغاز میں اسکینڈل سامنے آنے کے بعد درج کئے جانے والے مقدمات میں ابتدائی طور پر حراست میں لئے گئے 6ملزمان سے تفتیش کے بعد مزید شواہد جمع کرنے کے لئے ایف آئی اے کی جانب سے معاملے کی انتہائی سنگینی کے پیش نظر تحقیقات کا دائرہ 4غیر ملکی غیر ملکی سفارت خانوں اور 4غیر ملکی و ملکی فضائی کمپنیوں تک بڑھا دیا گیا تھا ۔کیونکہ تحقیقات میں معلوم ہوا تھا کہ ملزمان پہلے کینیا ،سری لنکا ،سوئزر لینڈ اور دبئی کے ویزوں پر بیرون ملک گئے جہاں سے ان کو اسرائیلی ایجنٹ اسحاق ماتت لے کر اردن ایئر پورٹ سے تل ابیب روانہ ہوتا رہا۔ مذکورہ چاروں ممالک سری لنکا ،متحدہ عرب امارات ،سوئیزر لینڈ اور کینیا کے سفارت خانوں سے وزارت خارجہ کے توسط سے مذکورہ ملزمان کو جاری کئے جانے والے ویزوں کی تفصیلات اور اس کے لئے جمع کروائے گئی دستاویزات کے حوالے سے ڈیٹا مانگا گیا تاہم اب تک ان سفار خانوں کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے جس پرریمائنڈر لیٹرز ارسال کئے جا رہے ہیں ۔اسی طرح سے قومی فضائی ایئر لائن پی آئی اے اور نجی ایئر لائن اتحاد ایئر ویز سمیت دیگر غیر ملکی ایئر لائنز جس میں قطر ایئر اور ایمرٹس ایئر لائن سے بھی ملزمان کاسفری ریکارڈ اور ٹکٹس کا ڈیٹا طلب کیاگیا جو کہ اب تک ان کمپنیاںدینے سے گریز کر رہی ہیں ان کا موقف ہے کہ مذکورہ ریکارڈ کئی برس پرانا ہے اس لئے دستیاب نہیں ہے ۔
اسی اسکینڈل کی تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ ملزمان کی جانب سے مجموعی طور پر 118قسطوں یعنی ٹرانزیکشنز میں مختلف اوقات کے اندر اسرائیل سے آنے والے ایک کروڑ 13لاکھ روپے سے زائد کی رقوم جنرل پوسٹ آفس میر پور خاص سے وصول کیں۔بعد ازاں اسرائیل سے اسی انداز میں پاکستان آنے والی رقوم کے حوالے سے چھان بین کا دائرہ کار وسیع کیا گیا تو اسٹیٹ بینک ،فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے ملنے والے ڈیٹا میں انکشاف ہوا کہ سندھ کے علاقوں کے علاوہ پنجاب کے شہروں گجرانوالہ ،گجرات اور دیگر علاقوں میں بھی کئی خاندانوں کو اسرائیل سے بھاری فنڈز کئی برسوں سے ملتے رہے ۔جس پر یہ فنڈز اسرائیل سے بھجوانے والے اور پاکستان میں وصول کرنے والوں کے حوالے سے تفتیش کرنے کے لئے رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے کے توسط سے وزارت داخلہ کو بھیج دی گئی ہے ۔اسی طرح سے اسٹیٹ بینک سے بھی ریکارڈ لیا جا رہا ہے کہ جب پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہی نہیں تو پھر ویسٹرن یونین یا دیگر مالیاتی اادارے کن قوانین کے تحت اسرائیل سے آنے والے فنڈز پاکستان منتقل کرتے رہے اور اس پر اسٹیٹ بینک کی جانب سے گزشتہ برسوں میں ایکشن کیوں نہیں لیا گیا ۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس اسکینڈل میں اب تک سامنے آنے والی معلومات سے واضح ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ کسی ایک خاندان یا علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں گزشتہ دہائیوں میں ایک سرگرم ملکی اور بین القوامی نیٹ ورک ملوث رہا ہے جس کے ذریعے پورے پاکستان کے مختلف علاقو ں سے شہری اسرائیل میں غیر قانونی اور خفیہ طور پر جاتے اور واپس آتے رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جبکہ اسرائیلی حکام بھی ان پاکستانیوں کو آرام سے اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت دیتے رہے ہیں ۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی کے آغاز میں ایف آئی اے میر پور خاص کی جانب سے اسرائیل میں غیر قانونی کے غیر قانونی طور پر سفر کرنے اور وہاں برسوں خفیہ طور پر قیام کرنے کے الزام میں 5ملزمان کو گرفتار کیا۔ جبکہ چھٹے شخص کو بعد ازاں حراست میں لیا گیا۔ایف آئی اے میر پور خاص کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اقبال کی زیر نگرانی تحقیقات کے بعد کی جانے والی گرفتاریوں کے بعد 8 ملزمان کے خلاف 5 مقدمات درج کئے گئے ۔ دیگر 2ملزمان ستارہ پروین اور عبدالماجد صدیقی جو کہ میاں بیوی ہیں۔انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوشی کے دوران ضمانت حاصل کرلی۔
مذکورہ کارروائی اس مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ کی بنیاد پر کی جانے والی انکوائری میں کی گئی جو کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک سے مالیاتی اداروں کے ذریعے ہونے والے مالیاتی لین دین کی نگرانی کرنے والے ادارے ایف ایم یو (فنانشل مانیٹرنگ یونٹ) کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ارسال کی گئی تھی ۔مذکورہ کارروائی میں نعمان صدیقی، کامل انور، کامران صدیقی، محمد ذیشان اور محمد انورکو گرفتار کیا گیا تھا ۔دستاویزات کے مطابق ملزمان کے خلاف پاسپورٹ ایکٹ ،امیگریشن آرڈیننس اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109کے تحت مقدمہ الزام نمبر 02/2023سے لے کر 06/2023تک جو 5مقدمات درج کئے گئے ۔مقدمہ الزام نمبر 3/2023کے متن کے مطابق دیگر پانچ افراد کی طرح کامران اپنے والد عبدالماجد اور والدہ ستارہ پروین کے ساتھ اسرائیل گیا تھا۔یہ تمام ملزمان پاکستان سے سری لنکا ،کینیا،سوئزر لینڈ اور دبئی جانے کے بعد اردن کے ایئر پورٹ سے اسرائیل جاتے اور آتے رہے۔جس کے لئے انہوں نے اسرائیلی ایجنٹ اسحاق ماتت کو مجموعی طور پر 26لاکھ رپے بھی دئے۔
یہ تینوں افراد 2011 میں اسرائیل گئے اور فروری 2013 میں واپس آئے۔جبکہ جولائی 2013 میں پھر اسرائیل گئے اور 2017 میں واپس پاکستان پہنچے تھے۔ حکام کے مطابق کامران سمیت چھ افراد زیر حراست میں ہیں۔ کامران کی والدہ ستارہ پروین اور ان کے شوہر عبدالجماد روپوش ہیں۔ستارہ پروین جن کی بہن اسرائیلی ایجنٹ اسحاق ماتت کی اہلیہ ہے اور وہ اسرائیل میں ہی 1980سے مقیم ہیں۔اسی طرح سے تفتیش میں سامنے آنے والے 5مزید پاکستانی شہریوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ اسی نیٹ ورک سے اسرائیل گئے اور ابھی وہیں ہیں جبکہ ان کا ساتھی حال ہی میں پاکستان واپس آیا ہے جس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔مذکورہ تمام ملزمان جن کی تعداد ان 10مقدمات میں 16کے لگ بھگ ہوگئی ہے ان کی قومی دستایزات بشمول ناختی کارڈز اور پاسپورٹ بھی بلاک کردئے گئے ہیں۔