رپورٹ: عمرا ن خان
کراچی : سونے کے کاروبار میں جواریوں اور کالا دھن کھپانے والوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں ۔سونے کے کاروبار کودستاویزی بنانے کے لئے حساس اداروں نے کھربوں روپے مالیت کی بلین ( صرافہ ) مارکیٹ کی کڑی مانیٹرنگ شروع کردی۔ تحقیقات کے لئے صرافہ مارکیٹ کے کمپیوٹرز اور رجسٹرڈ تحویل میں لئے گئے۔ اس کے باوجود سٹہ بازوں نے باہر بیٹھ کر کام شروع کردیا۔ گزشتہ روز واٹس ایپ گروپوں میں فی تولہ 2 لاکھ 72 ہزار میں ہزاروں کلو کی بکنگ ہوئی، جواریوں کوریٹ 3 لاکھ کراس کرنے کی امیدیں ہیں۔

سٹہ صرف کرکٹ میں ہی نہیں کھیلا جاتا پاکستان میں جواریوں نے ڈالر، چینی، سونے سمیت کئی اجناس میں بھی اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں۔ کھارادر صرافہ بازار جو پاکستان کا قدیم ترین صرافہ مارکیٹ ہے اس میں خام سونے یعنی بلین پر سٹے کا آغاز 60 کی دہائی میں میمن برادری کے بعض افراد نے شوقیہ شروع کیا۔ یہ وقت کے ساتھ منظم جوئے میں تبدیل ہوا جس اب صرافوں کی چوتھی نسل ڈیجیٹل فارم یعنی واٹس ایپ پر منتقل کرکے آن لائن گیمبلنگ میں تبدیل کرچکی ہے۔

ملک میں سونے کی خرید و فروخت کی آڑ میں بڑھتی ہوئی منی لانڈرنگ ،حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لئے ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کی ناکامی کے بعد حساس ادارے سرگرم ہوگئے ہیں۔چونکہ سونے کی خرید و فروخت زیادہ تر کیش پر ہوتی ہے ۔اس لئے اس کا کوئی بینکنگ ریکارڈ نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ کھربوں روپے کے اس غیر دستاویزی کاروبار پر اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے ساتھ کالے دھن کو کھپا دیا جاتا ہے۔ ملک کی سب سے قدیم کھارادر صرافہ بازار میں لگنے والا روایتی ( بلین) (Bullion)کا سٹہ تاریخ میں پہلی بار کئی ہفتوں سے بند ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ حساس ادارے اور وفاقی تحقیقاتی اداروں کی ٹیموں کی جانب سے ایک ماہ قبل یہاں پر بڑی اور ہنگامی کارروائی کی گئی جس میں یہاں قائم دکانوں اور کراچی صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے دفاتر سے معلومات حاصل کی گئیں ۔کارروائی میں یہاں سے وہ کمپیوٹرز بھی حاصل کئے گئے جن سے دبئی بلین مارکیٹ سے رابطے کئے جاتے تھے جبکہ خرید و فروخت کے ریکارڈ پر مشتمل رجسٹرڈ بھی لئے گئے۔مذکورہ کارروائی میں ایسوی ایشن کے عہدیداروں سے سونے کے نرخ طے کرنے اور اس کا اعلان کرنے کا طریقہ کار پوچھا گیا جبکہ اس میں ہونے والی سٹہ بازی کی معلومات حاصل کی گئیں ۔

اب تک اداروں نے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کے ذریعے کئی واٹس ایپ گروپوں میں سرگرم درجنوں بڑے سٹہ بازوں کے کوائف حاصل کرلئے ہیں جن کے خلاف جلد کارروائی متوقع ہے ۔امت کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے فہرست مکمل کئے جانے کے بعد ایف آئی اے کے حولے کردی جائے گی جس پر وفاقی وزیر خزانہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ملک گیر کارروائیوں کی ہدایات جاری کریں گے ۔صرافہ مارکیٹ ذرائع کے بقول سونے پر یہ سٹہ بلین (Bullion)کہلا تا ہے ۔بلین انگریزی زبان میں سونے اور چاندی کی اس خام حالت کو کہتے ہیں۔ جسے بعد ازاں تراش کرزیورات یا دیگر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں ۔یہ بڑے ٹکڑوں ،بلاکس اور بسکٹس کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے ۔سونے پر یہ سٹہ دنیا بھر کے ممالک میں شوقین اور تجربے کار تاجر کھیلتے ہیں لیکن اس میں ملکی قوانین ،متعلقہ اداروں کے قواعد وضوابط کا خیال رکھے جانے کے علاوہ منی لانڈرنگ یا حوالہ ہنڈی جیسے جرائم کی آمیزش سے بچنے کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے۔ جبکہ اس میں بلین کھیلنے والوں کو ہونے والا منافع یا نقصان بھی دستاویزی یعنی آن ریکارڈ ہوتا ہے جس کا ریکارڈ حکومتوں کے مالیاتی لین دین اور کاروبار کے مانیٹرنگ کے اداروں کے پاس موجو د ہوتا ہے ۔

مارکیٹ ذرائع کے بقول ماضی میں کراچی کی مرکزی صرافہ مارکیٹ کھارادر میں شوقین تاجر Bullionکھیلتے تھے جس کے لئے باقاعدہ قواعد و ضوابط طے شدہ تھے ۔ا س کھیل میں اکثریت کا تعلق میمن برادری سے ہوتا ہے جبکہ صرافہ بازار کے مرکز میں موجود ایک چھوٹے سے چوک پر جمع ہونے والے تاجروں کو سونے کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے ہونے والے اتار چڑھاﺅ سے آگاہ رکھنے کے لئے کمپیوٹرز سے منسلک اسکرینیں نصب ہوا کرتی تھیں جس میں دبئی سے موصول ہونے والی تازہ ترین اپ ڈیٹس کی روشنی میں بلین کھیلنے والے سونے کے تاجر سونے کی خرید و فروخت کرتے تھے اس کھیل میں صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے عہدیدا ر از خود بھی شریک ہوا کرتے تھے ۔قواعد و ضوابط کے تحت یہ ”سٹہ “ ہفتہ میں ایک دن صبح 9بجے سے شام 5بجے تک کھیلا جاتا تھا اور اس میں مقامی مارکیٹ میں سونے کے اتار چڑھاﺅ پر زیادہ سے زیادہ 200سے ڈھائی سو کا فرق ہفتہ وار پڑتا تھا ۔

ذرائع کے بقول سٹہ ”یعنی بلین “ میں 2020میں کئی گنا تیزی آئی اور یہ ہر طرح کے قواعد و ضوابط سے بے لگام ہوگیا حتیٰ کہ اس کو ہفتہ کے سات دن چوبیس گھنٹے کھیلا جانے لگا جس کے لئے ابتداءمیں بعض لالچی تاجروں کو واٹس ایپ گروپ تشکیل دئے اور اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے سونے کی مارکیٹ میں مصنوعی دباﺅ پیدا کرنا شروع کیا بعد ازاں اس میں دیگر تاجر بھی شامل ہوئے اور اب صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب تک سامنے آنے والے 13واٹس ایپ گروپوں میں 3ہزار سے زائد ایسے افراد شامل ہیں جوکہ سٹہ بازی میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے سینکڑوں کو نقصان بھی ہوچکا ہے تاہم وہ بڑے مگرمچھوں سے نقصان اٹھانے کے بعد مقامی مارکیٹ میں سونے کا لین دین کرنے کے والے عا م شہریوں سے پورا کر لیتے ہیں ۔

مذکورہ سٹہ کے ملک میں سونے کی صنعت اور قیمتوں پر کیا اثرات رونما ہوئے ان کا اندازہ مذکورہ اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سونے کی فی تولہ قیمت2لاکھ 70ہزار روپے کے قریب گردش کر رہی ہے ۔حالانکہ صرف 4برس قبل ستمبر 2019میں فی تولے سونے کا ریٹ 80ہزار روپے کے گرد گرش کر رہا تھا ۔تاہم جولائی 2020سے اچانک غیر معمولی اتار چڑھاﺅ آنے لگا اور روزانہ کی بنیاد پر فی تولے کی قیمتوں میں ایک سے دو ہزار روپے کے اتار چڑھاﺅ کے بجائے یک دم 5سے 10ہزار روپے کا اتار چڑھاﺅ دیکھا جانے لگا ۔اس میں وقت گزرنے کے ساتھ شدت آتی گئی جس کا ندازہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2022کے دوران زیادہ سے زیادہ قیمت ایک لاکھ 57ہزار روپے ریکارڈ کی گئی۔بعد ازاں 2023میں یہ ریٹ 2لاکھ کی حد عبور کرگیا۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک نے کبھی ریگو لیٹری اتھارٹی ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی عملی قدم اٹھایا۔جبکہ صرافہ ایسوسی ایشن خود مختار ادارے کی حیثیت سے سونے کی تجارت کی خریدوفروخت کے ریٹ مقرر کرتی رہی۔ تاہم بدقسمتی سے جب اس سٹہ بازی میں اضافہ ہواتو صرافہ ایسوسی ایشن اور ان کے تمام عہیدار مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باجود خاموش رہے ۔

ان گروپوں میں کھیلے جانے والے جانے والے سٹہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثال کے طور پررواں ہفتہ میں جمعہ کے روز مارکیٹ ریٹ شام کو فی تولہ 2لاکھ 60ہزار روپے پر بند ہوا تاہم ہفتے کی رات اور ہفتے کے دن واٹس ایپ گروپوں میں کئی سٹہ بازوں نے 2لاکھ 272ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے سونا بک کروا نا شروع کردیا ۔جبکہ ڈیمانڈ بڑھتے ہی سونا بیچنے والے 2لاکھ 75ہزار تک کے ریٹ بھی دینے لگے۔اصولی طور پر مقامی صرافہ مارکیٹ میں شام کو کام بند ہونے کے بعد اس کی ٹریڈ اور بلین اگلی صبح بازار میں کام شروع ہونے تک بند ہونا چاہئے۔ تاہم واٹس ایپ گروپو ں میں ملک کے ہزاروں تاجروں کے سامنے ٹریڈنگ چل رہی ہوتی ہے ۔صبح تک ریٹ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔جبکہ ستہ باز سونا بک کروا کر مال اتھائے بغیر اس کو آگے فروخت کرکے لاکھوں کا کمیشن راتو رات کما لیتے ہیں اور عوام کے لئے ریٹ بڑھ جاتا ہے ۔ اگلی صبح مارکیٹیں اسی ریٹ پر کھلنے کے بعد کام شروع کرتی ہیں۔ جب تک درجنوں سٹے باز کروڑوں روپے بٹور چکے ہوتے ہیں ۔

یہی مصنوعی بائنگ سیلنگ مارکیٹ میں منوپلی پیدا کر رہی ہے ۔حیرت انگیز طور پر ماضی میں مرکزی صرافی ایسوسی ایشن کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاﺅ کی مناسبت سے ریٹ کھولے اور بند کئے جاتے تھے ۔تاہم صرف چند برسوں میں اس سٹہ باز گروپ نے اس قدر اجارہ داری قائم کرلی کہ سونے کی عالمی مارکیٹ کو ہی نظر انداز کردیا گیا وہاں ہونے والے اتار چڑھاﺅ کے بجائے اپنے علیحدہ ریٹ کھولے اور بند کئے جانے لگے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں جب عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی تھیں جبکہ پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔