ملک میں دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کئے گئے اہم ادارے ( نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی ) نیکٹا کو مسلسل نظر انداز اور غیر فعال رکھا گیا ۔تاہم موجودہ حکومت میں اس اہم ادارے کو از سر نوفعال کرنے اور اس کے تحت تمام اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے تیزی سے کام شروع کردیا گیا ۔
حالیہ دنوں میں اس ضمن میں اٹھائے گئے سب سے اہم قدم میں نیکٹا میں ملک بھر سے 120افسران بھرتی کر لئے گئے ہیں ۔ملک کے طول عرض میں دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے اسباب کے مستقل خاتمے کے لئے آئندہ کچھ ہی عرصہ میں تما م صوبوں کی کاﺅنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹس یعنی سی ٹی ڈیز کو اس ادارے کے تحت کرنے کے امکانات ہیں ۔فی الوقت سی ٹی ڈیز صوبائی پولیس کے آئی جیز کے ماتحت ہیں ۔اس طرح سے ایک نئے صوبائی سپریم تحقیقاتی ادارے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کی اس وقت سربراہی نیشنل کو آرڈی نیٹر کے طور پر سابق ڈی جی ایف آئی اے رائے طاہر کر رہے ہیں ۔
اسلام آباد میں سکیورٹی سے منسلک اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی(NACTA)کے تحت گزشتہ روز بھرتے کئے جانے والے 120کے لگ بھگ افسران کو ان کے تقرر نامے جاری کردئے گئے ہیں۔جن میں 17گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر،18گریڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹرز اور 19گریڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹرز شامل ہیں ۔یہ بھرتیاں ادارے کے تحت میرٹ پر بھی کی گئی ہیں جس میں بھرتی کے خواہشمند افراد کے حوالے سے تفصیلی انٹرویوز ،ٹیسٹ او ر چھان بین کی گئی ۔اس عمل میں ان افراد کے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور دہشت گردی کے لئے ہونے والی فنڈنگ کے حوالے سے تفتیش کی خصوصی مہارت بھی پرکھی گئی ۔ذرائع کے بقول نیکٹا میں ان بھرتیوں کے لئے ملک بھر سے سینکڑوں درخواست گزاروں کی جانب سے حصہ لیا گیا تاہم زیادہ تر جن افراد کو منتکؓ کیا گیا ہے ان کا تعلق کاﺅنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) پنجاب سے ہے جبکہ کچھ افسران ایف آئی اے سے بھی لئے گئے ہیں ۔یعنی ان افسران کے پاس سی ٹی ایف اور ایکسٹریم ازم(دہش گردوں کو فنڈنگ اور انتہاءپسندی) کے حوالے سے تفتیش اور کارروائیوں کا کئی برس کا تجربہ بھی موجود ہے ۔
ذرائع کے بقول گزشتہ چند مہینوں میں وزیر اعظم شہباز شرریف کی جانب سے ملکی سلامتی کے اداروں اور صوبائی سیاسی عہدیداروں کے ساتھ اس ضمن میں کئی اہم میٹنگز کی گئیں ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت کم از کم اس دوران ایک درجن سے زائد ایسے اجلاس ہوئے جن میں سکیورٹی اداروں ،سیاسی رہناﺅں کے ساتھ ہی نیکٹا کے افسران نے شرکت کی اور وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی ۔ذرائع کے بقول نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کا قیام ن لیگ کی گزشتہ حکومت کے دوران اس وقت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خصوصی کاوش سے اس وقت لایا گیا تھا جبکہ ملک کے طول عرض میں انتہاءپسند اور کالعدم تنظیموں نے دہشت گردی کی شورش بپا کر کھی تھی ۔اس ادارے کا قیام نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیا گیا تھا ۔اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک اپیکس کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی وفاقی اور صوبائی سطح پر اجلاس منعقد ہوتے تھے انہیں اسجلاوں میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور انتہاءپسندی کی وجوہات کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹوں کی روشنی میں ان اسباب کے مستقل حل کے لئے نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کا قیام عمل میں لانے کی تجویز دی گئی تھی جسے 2016میں باقاعدہ فعال کردیا گیا تھا ۔
تاہم گزشتہ برس تحریک انصاف کی حکومت کے ختم ہونے کے فوری بعد یعنی مئی 2022میں نئی حکومت کی جانب سے نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو ایک بار پھر فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔جس کے پس منظر میں کچھ اہم وجوہات بھی شامل تھیں ۔ان میں سب سے بڑی وجہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر تھی جس نے کراچی سے پشاور تک ملک کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا ۔جس کا آغاز کراچی یونیورسٹی میں خاتون خود کش بمبار سے ہوا جس میں چینی شہریوں سمیت 4افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے ۔اس کے سات ہی صدر کے علاقے میں پر ہجوم مقامات پر 2موٹر سائیکل بم دھماکے کئے گئے جبکہ بلوچستان اور پشاور میں پولیس دفاتر کے ساتھ ہی سی ٹی ڈی کے ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔اچانک یک دم دہشت گردی کے واقعات کا اس طرح سے واپس رونما ہونا حکومت اور اداروں کے لئے لمحہ فکریہ بن گیا تھا ۔جس کے بعد نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو فعال کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی گئی ۔
ذرائع کے بقول اس وقت نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے سے زیادہ پالیسی ساز ادارے اور تمام صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ایک کو آڈینیٹر کی حیثیت حاصل ہے ۔جبکہ آئندہ اقدامات میں نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو از خود ایسے وفاقی ادارے میں تبدیل کرنا مقصود ہے جس کے پاس کاﺅنٹر ٹیررفنڈنگ اور اینٹی ایکسٹریم ازم کے حوالے سے تحقیقات کے لئے اپنے افسران ہوں ۔اور ملک میں دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے اہم کیسوں کو اس ادارے کے ذریعے نہ صرف حل کیا جاسکے بلکہ ان پر ایک خصوصی قوانین کے تحت کارروائی بھی کروائی جاسکے ۔اس مقصدکے لئے اس وقت 2قسم کی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ صوبائی سی ٹی ڈیز کو ان کے دفاتر اور وسائل سمیت نیکٹا کے ماتحت کر دئے جائیں جہاں نیکٹا کے ماہر افسر بیٹھ کر کام کر سکیں تاہم اگر صوبوں کی جانب سے پس و پیش کی جاتی ہے تو پھر صوبائی سی ٹی ڈیز کو آئی جیز کے ماتحت ہی رہنے دیا جائے گا تاہم ان کے ساتھ سینٹرل مانیٹرنگ اور ڈیٹا شیئرنگ سسٹم بنا کر کو آرڈی نیشن کو مضبوط کردیا جائے گا تاکہ نیکٹا اسلام آباد کے افسران کے ساتھ صوبائی سی ٹی ڈیز مسلسل کام کر سکیں ۔
اس وقت نیکٹا کے سربراہ رائے طاہر خود سابق ڈی جی ایف آئی اے اور سابق ڈی آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب رہ چکے ہیں اور دہشت گردی اور انتہاءپسندی کی کارروائیوں کے انسداد کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں ابتدائی طور پر دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے ساتھ فنڈنگ ،مدارس کی مانیٹرنگ ،کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے سرگرمیاں روکنے کے علاوہ مجموعی طور پر 20نکات شامل کئے گئے تاہم وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حکومت سکیورٹی اداروں کی تجاویز پر ان میں اضافہ یا ردو بدل بھی کرسکتی ہے ۔