رپورٹ : عمران خان
کراچی: سابق عبوری حکومت کے دوران موثر کریک ڈاو¿ن کے نتیجے میں تاریخ کی نچلی ترین سطح پر جانے والی ڈیزل اسمگلنگ دوبارہ عروج پر پہنچ گئی۔ ڈیزل اسمگلنگ سے منسلک نیٹ ورک کی تفصیلات سامنے آگئیں۔ حساس اداروں نے کسٹمز کے ساتھ مل کر ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث گروپوں کے خلاف کریک ڈاﺅن تیز کردیا ۔تاکہ اس اسمگلنگ کو چند ماہ قبل تک کے لیول تک لایا جاسکے اور ملک کو ہونے والے کھربوں روپے کے نقصان سے بچایاجاسکے ۔
ایک اندازے کے مطابق 2014سے 2018کے درمیان افغانستان اور ایران سے اسمگل ہو کر آنے والے سامان کے حجم میں گزشتہ دہائی کے مقابلے میں 3گنا اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ ملک کی مجموعی دستاویزی اکانامی یعنی جی ڈی پی کے مقابلے میں 50فیصدہوگیا ۔یعنی اس راستے سے ہونے والی اسمگلنگ اور حاصل کئے گئے منافع کا ملکی دستاویزی ریکارڈ میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے اور یہ کھربوں روپے کا سالانہ کالادھن بلیک اکانامی کے ذمرے میں آتا ہے ۔اس وقت ملک کی مجموعی ڈی جی پی سے صرف 10فیصد ٹیکس حکومتی خزانے کو مل رہا ہے جو کہ دنیا میں سب سے کم شرح ہے۔اس میں اسمگلنگ کا 50فیصد حجم سرے سے شامل ہی نہیں ہے ۔
حالیہ عرصہ میں منظر عام پر آنے والی رپورٹس کے مطابق گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے لے کر اب تک ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی اسمگلنگ میں40فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگلنگ سے بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں بھی منسلک ہیں۔یومیہ 10لاکھ لیٹرز سے زائد اسمگل شدہ ایرانی تیل ملک بھر کے 538غیر قانونی پٹرول پمپوں پر سپلائی کیا جاتا ہے۔جس سے قومی خزانہ کو سالانہ250ارب سے زائد کا نقصان پہنچایاجارہاہے۔
رپورٹس کے مطابق اس اسمگلنگ کو روکنے کے لئے مقتدر اداروں کی سربراہی میں کسٹمز ،ایف آئی اے ،اے این ایف ،میری ٹائمز ،کوسٹ گارڈز ،لیویز ،ایف سی اور پولیس کے ساتھ مل کر اسمگلنگ کے روایتی راستوں پر اکتوبر 2022سے 10نئی چیک پوسٹس بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اس خصوصی آپریشن کے نتیجے میں 2023کے آخر تک بہترین نتائج حاصل کئے گئے ۔جہاں سے حساس اداروں کے اشتراک سے معلومات کی بنیاد پر کئی کامیاب آپریشن کئے گئے۔ان آپریشنز کے تسلسل کے نتیجے میں 2014سے 2018تک انتہائی بڑھ جانے والے سلسلے میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی ۔جس کے لئے بلوچستان کورپ کمانڈ کی جانب سے خصوصی حکمت عملی بنائی گئی تھی ۔
اس آپریشن کے تسلسل کے تحت ڈی آئی جی پولیس ،ایڈیشنل سیکرٹری آفس بلوچستان اور ایف سی کمانڈ کے ساتھ موثر ربط قائم کیا گیا ۔اسی دوران یک ہی کارروائی میں ایک ارب سے زائد چینی کے 15ٹرکوں کے قافلے کو پکڑنے کا میاب آپریشن بھی کیا گیا ۔مجموعی طور پر اس دوران 1600ٹن سے زائد کی چینی کی اسمگلنگ ناکام بنائی گئی ۔جس کی وجہ سے چینی مافیا کی جانب سے اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے بحران پیدا کرکے چینی کی قیمت ڈھائی سو روپے تک لے جانے کی کوشش کو ناکام کیا گیا اور چینی کی قیمت مقامی مارکیٹ میں 160روپے کلو تک گری۔جبکہ اسی دوران آٹا اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں مارکیٹ میں آٹا 1000روروپے فی بوری سے 700روپے فی بوری تک نیچے آیا ۔
تحقیقاتی رپورٹ میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے منسلک پولیس ،لیویز اور کسٹمز کے 100افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جبکہ 105اسمگلروں کے کوائف کو بھی فہرست کا حصہ بنایا گیا ہے۔موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ صوبائی پولیس کے انسپکٹرز جنرلز لیویز حکام اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرکو ارسال کی گئی ہے۔ جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایرانی ڈیزل، کپڑے اوردیگراشیاءکی اسمگلنگ میں ملک بھرکے کسٹمز ، پولیس ،لیویزاوردیگرایجنسیوں کے 100اہلکاروں اور افسران کی جانب سے سہولت کاری کا کرداراداکیاہے۔مذکورہ افسران میں سب سے زیادہ تعداد پولیس ،دوسرے نمبر پر لیویز جبکہ تیسرے نمبر پر کسٹمز اہلکاروں کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2023میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ اپنے عروج پر پہنچی جب یومیہ 1ایک کروڑ لیٹر سے زائد تیل اسمگل کیا جاتا رہا تاہم بعد ازاں نگران حکومت کے دور میں جب عسکری اداروں کی تعاون سے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈا?ن کا آغاز کیا گیا تو ایرانی تیل کی اسمگلنگ کم ہوکر 55لاکھ لیٹر یومیہ سے گر چکی تھی۔تاہم عام انتخابات کے بعد اب یہ اسمگلنگ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور یومیہ 89لاکھ لیٹرز سے زائد تیل اسمگل کرکے لایا جا رہا ہے۔اسمگلنگ نیٹ اورک اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند دہشت گردتنظیمیں بی ایل ایف ،براس، بی این اے،بی ایل اے مجید بریگیڈ گروپ بھی منسلک ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کی ادائیگیاں حوالہ ہنڈی سے کی جا رہی ہیں۔جبکہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پنجاب،کے پی کے، سندھ اوربلوچستان کے 105اسمگلروں نے حصہ لیا۔
فہرست میں دی گئی تفصیلات کے مطابق ان اسمگلروں میں 26کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 11اسمگلر سندھ سے ہیں اسی طرح سے 7اسمگلروں کا تعلق خیبر پختونخواہ جبکہ سب سے زیاد 57اسمگلروں کا تعلق بلوچستان سے ہے ۔اسمگلنگ کی سہولت کاری میں ملوث 100لیویز ،پولیس اور کسٹمز افسران میں سے 15کا تعلق پنجاب ،7کا تعلق سندھ ،6کا تعلق خیبر پختونخواہ اور 71کا تعلق بلوچستان سے بتایا گیا ہے۔
اسمگل کیاجانے والا ڈیزل ملک بھرکے 538پیٹرول پمپس پر مذکورہ ایجنسیوں کے افسران واہلکاروں کی ملی بھگت سے سپلائی جاتارہاہے۔رپورٹ میں ان پمپوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ایرانی پٹرولیم مصنوعا ت بشمول ڈیزل اورپیٹرول پاکستان کو بنیادی طور پر مکران اور رخشان ڈویڑن کے غیر متواتر راستوں سے اسمگل کیا جا رہا ہے۔ ایرانی ڈیزل وپیٹرول کی سالانہ اسمگلنگ 2.8ارب لیٹرہے۔ جس سے قومی خزانہ کو سالانہ227اراب کا نقصان پہنچایاجارہاہے۔ بلوچستان میں اسمگل شدہ ایرانی تیل کو زیادہ تر سڑک کے کنارے غیر مجاز پٹرول آو¿ٹ لیٹس پر فروخت کیا جاتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق اسمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور کے پی کے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات ایل ای اے کے غیر اخلاقی اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ایرانی تیل کی اسمگلنگ ممکن نہیں۔کیونکہ اطلاعات کے مطابق سیکڑوں آئل ٹینکرز لاکھوں لیٹر ایرانی آئل لے کر اوتھل، ضلع لسبیلہ سے سندھ جاتے ہیں۔ لیکن روزانہ کی بنیاد پر ان متعدد چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد538غیرقانونی وبغیرلائسنس والے پیٹرول پمپس پر سپلائی کیاجاتاہے جس میں محکمہ کسٹمز،لیویز پولیس اوردیگرایجنسیوںکے 100افسران واہلکا رسہولت کاری کا کرداراداکرتے ہیں۔