رپورٹ: عمران خان

کراچی:کسٹمز نے تحقیقاتی ایجنسی کے ساتھ مل کر بلوچستان سے کراچی اسمگلنگ نیٹ ورک سے منسلک انٹرسٹی بس کمپنیوں کی نشاندہی کرنا شروع کر دی ہے۔ تا کہ ان بس مالکان کے خلاف اسمگلنگ کے ساتھ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کر کے گاڑیاں بند اور ان کے روٹ پرمٹ ولائسنس منسوخ کیے جاسکیں۔

اس وقت بلوچستان سے چھالیہ، انڈین گٹکا، خشک دودھ، ادویات، ٹائر، کپڑا ، الیکٹرانک سامان، کاسمیٹکس اور دیگر کھانے پینے کی اشیا بہت بڑی تعداد میں مسافر بسوں کے خفیہ خانوں میں رکھ کر کراچی منتقل کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں کسٹمز کی ٹیموں نے 10 سے زائد مسافر بسوں کو اسمگلنگ کے سامان کے ساتھ ضبط کیا تو اسمگلنگ مافیا کے ساتھ منسلک بس مالکان نے ڈرائیورز کلینرز اور دیگر کارندوں کو استعمال کر کے بلوچستان سندھ کی مرکزی سڑک احتجاج کے ذریعے بلاک کرانا شروع کر دی۔ تا کہ اداروں پر دباؤ ڈال کر کارروائیاں روکی جاسکیں۔ جس کے بعد کسٹمز حکام نے سڑکیں بند کرانے والوں کی فہرست بھی مرتب کرنا شروع کر دی ہے۔

ذرائع کے بقول کسٹمز کراچی نے بلوچستان سے یومیہ کروڑوں روپے کا اسمگلنگ کا سامان کراچی منتقل کرنے والے بڑے ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی بنالی ہے۔

اسمگلنگ میں ملوث انٹرسٹی بس سروسز کمپنیوں کے روٹ پر ٹس ، لائسنس منسوخ کرانے اور سفارشاتی رپورٹ عملی کارروائی کیلئے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز ، سندھ رینجرز اور صوبائی حکومتوں کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

درجنوں انٹرسٹی بس کمپنیوں کے مالکان گزشتہ ایک دہائی سے زائداربوں روپے کا سامان بلوچستان سے کراچی اسمگل کر رہے ہیں اور اس وقت یہ اسمگلنگ کا بڑا منظم نیٹ ورک بن چکا ہے ۔

سندھ بلوچستان کے مختلف عناصر کے بے پناہ دباؤ کے باجود ایسی بسوں کو سامان سمیت تحویل میں لینے کے بعد ان کی کمپنیوں اور مالکان کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔ جن کے خلاف اسمگلنگ کے متعدد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ان کارروائی میں بالخصوص ان بس مالکان کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر ایکشن لیا جا رہا ہے۔ جن میں اسمگلنگ کا سامان چھپانے کیلئے خفیہ جگہیں بنا کر استعمال کی جارہی ہیں۔ کیونکہ ان وارداتوں کیلئے بسوں کے مالکان ذمہ داری ڈرائیور یا کلینر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

ذرائع کے مطابق چمن، کوئٹہ، واشک، نوشکی، چاغی، تربت ، پنجگور اور گوادر سمیت دیگر شہروں سے روزانہ کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمینل اور سہراب گوٹھ بس اڈوں پر آنے والی درجنوں بسوں میں کروڑوں روپے مالیت کی اسمگل شدہ چھالیہ، تائر، غیرملکی کپڑا ، الیکٹرانک سامان، کاسمیٹکس ، غیر مکی بسکٹس، ٹافیاں، چاکلیٹ، جیم جیلی، ایرانی خوردنی تیل ، ادویات سمیت دیگر اشیائے خورونوش اور ٹن پیک فوڈ منتقل کیا جا رہا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ کسٹم کے مختلف چھاپوں میں میسرز ای کے موورز ، میسرز محمود ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز السيف ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز الداؤ ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز القادر ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز المکہ ایکسپریس ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز جے جے موورز ٹرانسپورٹ کمپنی میسرز المتازٹرانسپورٹ کمپنی میسرز الشعیب ڈائیووٹرانسپورٹ کمپنی میسرز الوحید ڈائیووٹرانسپورٹ کمپنی سمیت کئی دیگر کمپنیوں کی بسیں درجنوں بار سامان سمیت پکڑی جاچکی ہیں۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں چھوٹی سوزوکیوں اور کاروں میں سامان اسمگل کرنے والے چھوٹے اسمگلرز نے اتنی دولت کمائی کہ اب کئی انٹرسٹی بستر کے وہ خود مالک بن گئے۔ ایک بس کی قیمت کم از کم ایک کروڑ اور زیادہ سے زیادہ تین کروڑ تک ہوتی ہے۔

ان اسمگلرز نے اپنی مسافر بس سروس کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر بلوچستان کے مختلف شہروں سے کراچی کے روٹ پرمٹ صوبائی حکومتوں میں شامل اپنے سر پرستوں سے حاصل کیے۔ سینکڑوں ایسی بسیں ہیں۔ جن سے مسافروں کی آدھی سیٹیں نکال کر صرف اسمگلنگ کا سامان رکھنے کی جگہیں بنائی گئی ہیں۔ اسمگلروں کو بڑا مالیاتی پہنچانے کے لئے انٹرسٹی بسوں، اڈوں اور گوداموں کے مالکان کو اینٹی اسمگلنگ کے ساتھ ہی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کو بھی ہر کارروائی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جس کے تحت اسمگلنگ میں ملوث بسوں اور گوداموں کو مالکان کو واپس دینے کے بجائے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ضبط کیا جا سکتا ہے۔

ان ترمیمی قوانین کے تحت ایف بی آر ہیڈ کوارٹر حکام نے ملک بھر میں کسٹم افسران کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 50 لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا سامان ضبط کرنے پر ملوٹ کمپنیوں ، ایجنٹوں، گودام مالکان اور اسمگلرز کے خلاف لازمی مقدمات درج کریں۔ جبکہ ایک کروڑ روپے سے زائد سامان ملنے کی صورت میں کسٹم افسران مقدمات درج کرنے کے ساتھ ہی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ملوث افراد کی اتنی ہی مالیت کی جائیدادیں اور اثاثے بھی ضبط کرنے کی کارروائی کرنے کے پابند ہوں گے۔

ذرائع کے بقول انٹرسٹی بسوں کے متعلق یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا تا کہ ان بسوں کے رجسٹریشن نمبر اور ان کمپنیوں کے مالکان کی تفصیلات کے ذریعے صوبائی اداروں سے کارروائی پر عملدرآمد کروایا جا سکے۔ ان مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں۔ جن میں مسافروں بسوں سے اسمگلنگ کا سامان ضبط کیا گیا۔ انٹرسٹی مسافر بسیں چمن کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماہانہ اربوں روپے مالیت کا سامان کراچی منتقل کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔

کئی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسیں درجنوں مرتبہ کروڑوں روپے کے اسمگل شدہ سامان کے ساتھ کسٹم انٹیلی جنس کراچی، اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن اور کسٹم کوئٹہ کے چھاپوں میں پکڑی جاچکی ہیں۔ جن میں ان کے ڈرائیور اور کلینز وغیرہ گرفتار ہو چکے ہیں۔

یہ مافیا اس وقت بدترین معاشی صورتحال میں روزانہ کروڑوں روپے کے سامان کی اسمگلنگ کر کے قومی خزانے کوڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان سے دو چار کر رہی ہے۔