عمران خان
کراچی: تحقیقاتی اداروں نے اپنی رپورٹ میں ڈالرز کی قدر میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی 11 وجوہات اور ان کے انسداد کہ سفارشات حکومت کو ارسال کردیں۔ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک، نجی بینکوں، ایکسچینج کمپنیوں، کسٹمز کے علاوہ ٹیکس چوری کرنے والے تاجروں کے کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میںایئر پورٹس سے روزانہ کھیپ لے کر جانے والوں کو بھی زر مبادلہ کی چوری کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔جوکہ جاتے ہوئے ڈالرز اسمگل کرکے لے جاتے ہیں اور واپسی پر دبئی ،ملائیشیائ،سنگاپور،ہانگ کانگ ،ترکی ،باکو اور دیگر ممالک سے مختلف قسم کا سامان بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس کے لے کر آتے ہیں۔ جبکہ چمن اور طورخم سمیت افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی نقل حرکت کے مقامات سے ڈالرز کی اسمگلنگ کو بھی اہم پوائنٹ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
ان مقامات سے روزانہ لاتعداد افرادمقامی کرنسی جسے عرف عام میں ”خرچہ کرنسی“ اور ”خچراکرنسی “کہا جاتا ہے اس کی آڑ میں ڈالر لے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک حکام سے این او سی لے کر کرنسی قانونی طور پر ایکسپورٹ کرنے والی ایکسچینج کمپنیاں اور سرکاری ادارے بھی ڈالرز کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں کیونکہ اس کی پیشگی اطلاع ایف آئی اے کو نہیں دی جاتی تاکہ اس میں چھان بین کی جاسکے کہ جو کرنسی اور جتنی کرنسی ڈکلیئر کی جا رہی ہے اتنی ہی مالیت کی وہی کرنسی ہے۔
رپورٹ میں اس صورتحال کے ذمے دار تمام عناصر کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ہی فارن کرنسی ریگو لیٹری ایکٹ ،اینٹی کرپشن ایکٹ ،منی لانڈرنگ ایکٹ ،بے نامی ایکٹ اور بینکنگ قوانین کے تحت سخت کارروائیاں کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق شامل کئی نقاط پر ملک بھر میں آرمی چیف کی ہدایات پر مقدرہ اداروں کے اشتراک کے ساتھ ایف آئی اے ،ایف بی آر ،کسٹمز ،اسٹیٹ بینک سمیت دیگر اداروں نے عمل در آمد شروع کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان سفارشات میں سب اہم نقطہ جس پر عمل در آمد کرنے پر زور دیا ہے کہ وہ یہ ہے کہ ملک بھر کے تمام ایسے شہریوں کے بینک اکا?نٹس کا ڈیٹا چھان بین کے لئے ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔ جنہوں نے فارن کرنسی اکا?نٹس کھلوا رکھے ہیں تاکہ جانچ پڑتال کی جاسکے کہ ان شہریوں نے گزشتہ برسوں میں کتنی غیر ملکی کرنسی اپنے بینک اکا?نٹس کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی۔ اور انہوں نے یہ کرنسی اوپن مارکیٹ یا انٹر بینک سے کن ایکسچینج کمپنیوں اور نجی بینکوں سے خریدی۔اگر یہ شہری غیر ملکی کرنسی قانونی طور پر خرید کر بیرون ملک بھیجوانے کے ڑبوت پیش نہ کرسکیں۔ تو ان کے خلاف فارن کرنسی ریگو لیٹری ایکٹ کے تحت کارروائیاں کرکے ان تمام ڈیوٹی اور ٹیکس کی وصولی کی جائے جوکہ وہ زر مبادلہ کی غیر قانونی منتقلی کرکے قومی خزانے کو پہنچاتے رہے ہیں۔ایسے ہزاروں شہریوں کے ایف آر سی بینک کھاتے یعنی فارن کرنسی اکا?نٹس ملک بھر میں گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔ان میں سے ہر اکا?نٹ سے اب تک بینکنگ چینل سے لاکھوں اور کروڑوں ڈالرز بیرون ملک منتقل کئے جاچکے ہیں۔
حکومتی سطح پر حالیہ عرصہ میں وفاقی تحقیقاتی اداے سے ڈالرکی قدر میں اضافہ اور غیر ملکی زر مبادلہ کے غیر قانونی انخلائ ( کیپیٹل فلائٹ ) کی وجوہات اور ان کے انسداد کے حوالے سے سفارشاتی رپورٹ طلب کی گئی۔جس پر تحقیقاتی اداے کے حکام نے کراچی ،پشاور ،لاہور ،کوئٹہ اور اسلام آباد میں گزشتہ برسوں کے دوران حوالہ ہنڈی میں ملوث گرفتار ملزمان سے ہونے والی تفتیش اور سامنے آنے والی وجوہات پر مواد جمع کرکے ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی۔یہ رپورٹ اعلیٰ حکومتی اور سرکاری حکام کو ارسال کی گئی۔مذکورہ کیسوں میں جن ملزمان سے ہونے والی تفتیش کو شامل کیا گیا ان میں پرائیویٹ اور بغیر لائسنس کے غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے ،ڈالرذخیرہ کرنے والے اور فروخت کرنے والے دکاندار ،تاجروں کے علاوہ لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیوں کے ملازمین اور افسران بھی شامل رہے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں مجموعی طور پر 11نقاط کو شامل کیا گیا ہے۔جس میں سر فہرست تین مختلف اداروں کے کردار پر بات کی گئی ہے جوکہ اس صورتحال میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے لین دین ،غیر قانونی خرید و فروخت ،نجی بینکوں، ایکسچینج کمپنیوں پر اس حوالے سے نگرانے رکھنے اور انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں توازن قائم رکھنے میں اپنے ہی قوانین پر عمل در آمد یقینی بنانے میں ناکامی کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی نجی بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں میں غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے حوالے سے ملکی قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طویل عرصہ سے ایکسچینج کمپنیوں میں قوانین کے مطابق ان کے دفاتر کے کا?نٹرز پر غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے بجائے دفاتر کے باہر یہ لین دین کیا جاتا رہا۔جس کے نتیجے میں غیر ملکی کرنسی بیچنے والوں اور خریدنے والوں کا شناختی ،تصویری اور وڈیو ڈیٹا اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں شامل نہیں ہوسکا جو کہ اسٹیٹ بینک کے منی چینجرز کو لائسنس جاری کرنے والے ڈپارٹمنٹ کے ایکسچینج پالیسی ڈپارٹمنٹ کی ناکامی ،ایکسچینج کمپنیوں اور فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اس بات کا اندازہ حوالہ ہنڈی کے خلاف ایف آئی اے کراچی کے کمرشل بینکنگ سرکل ،کاپوریٹ کرائم سرکل اور اینٹی کرپشن اینڈ کرائم کی جانب سے کی جانے والی نصف درجن کارروائیوں سے لگایا جاسکتا ہے جس میں گرفتار ہونے والے ملزمان وہ رائیڈر اور کیریئر تھے جو کہ اپنی موٹر سائیکلوں یا کاروں میں غیر ملکی کرنسی رکھ کر اپنے کسٹمرز کو گھروں یا دیگر پبلک مقاما ت پر ڈلیوری دینے جا رہے تھے۔ایسے بے نامی کسٹمرز میں کئی بڑے تاجر ،سرمایہ کار ،بیوروکریٹس ،سرکاری افسران ،سیاسی شخصیات اور ان کے فرنٹ میں شامل ہیں جوکہ اس خصوصی سروس کے عوض ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز کو زیادہ کمیشن ادا کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میںیہ مخصوص” گاہک “ ایکسچینج کمپنیوں میں قوانین کے مطابق ان کے کا?نٹرز پر جا کر ڈالر خریدنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ لائسنس کئی بڑی اور بی کیٹگری کی چھوٹی لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اپنے مخصوص کسٹمرز کو غیر ملکی کرنسی زیادہ مارجن اور کمیشن پر بیچنے کی لالچ میں بے نامی شناختی کوائف استعمال کرتی رہی ہیں جو کہ یا تو ایکسچینج کمپنیوں کی انتظامیہ اور ایجنٹ خود حاصل کرتے ہیں یا پھر مخصوص کسٹمرز اپنے طور پر اپنے گھروں اور کمپنیوں کے ملازمین کے ساتھ ہی آبائی علاقوں کے غریب شہریوں کے شناختی کوائف استعمال کرکے غیر ملکی کرنسی خرید لیتے ہیں۔بعد ازاں یہ غیر ملکی کرنسی ان کے فارن کرنسی اکا?نٹ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کردی جاتی ہے۔
رپورٹ میں تمام ہی نجی بینکوں کو اس سہولت کاری اور گٹھ جوڑ کا اہم کردار بتایا گیا ہے کیونکہ نجی بینکوں کی برانچوں ،ایریا اور ہیڈ کوارٹرز انتظامیہ کی مکمل قانونی ذمے داری ہے کہ وہ غیر ملکی کرنسی کیش لے کر آنے والے شہریوں کی رقم ان کے ایف آر اکا?نٹس میں جمع کرنے سے پہلے ان سے کرنسی کی قانونی خرید کے حوالے سے رسیدیں اور دستاویزات طلب کریں اور ان کی تصدیق کروائیں بصورت دیگر ان کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کو رپورٹ کریں تاکہ ایسے شہریوں کی چھان بین کے لئے ان کی مشکوک ترسیلات زر کی رپورٹ ایف آئی اے سمیت متعلقہ اداروں کو بھیجی جائے تاہم نجی بینکوں کے افسران اپنے کمیشن اور بڑھتے کاروبار کی لالچ میں ایسا نہیں کرتے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والے ہزاروں تاجر ،سرمایہ کار ،مل مالکان اپنی در آمد ات میں انڈر انوائسنگ یعنی مالیت اور مقدار کم ظاہر کرکے سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حوالہ ہنڈی سے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں جوکہ وہ غیر قانونی طور پر اوپن مارکیٹ سے خریدتے ہیں یہ مجموعی بلیک مارکیٹ کا 60فیصد سے بھی زائد ہے۔کیونکہ یہ تاجر جتنی در آمدی مالیت ظاہر کرتے ہیں اتنی ہی ادائیگی بینکنگ چینل کے قانونی راستے سے کرتے ہیں اور چھپائی گئی سامان کی مقدار کی ادائیگی ہنڈی حوالہ سے ہوتی ہے۔