رپورٹ: عمران خان

کراچی: عام انتخابات کے بعد ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی اسمگلنگ میں34فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگلنگ سے بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں بھی منسلک ہیں۔یومیہ 89لاکھ لیٹرز اسمگل شدہ ایرانی تیل ملک بھر کے 538غیر قانونی پٹرول پمپوں پر سپلائی کیا جاتا ہے۔جس سے قومی خزانہ کو سالانہ227اراب کا نقصان پہنچایاجارہاہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے منسلک پولیس ،لیویز اور کسٹمز کے 100افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جبکہ 105اسمگلروں کے کوائف کو بھی فہرست کا حصہ بنایا گیا ہے۔موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ صوبائی پولیس کے انسپکٹرز جنرلز لیویز حکام اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرکو ارسال کی گئی ہے ۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایرانی ڈیزل، کپڑے اوردیگراشیاءکی اسمگلنگ میں ملک بھرکے کسٹمز ، پولیس ،لیویزاوردیگرایجنسیوں کے 100اہلکاروں اور افسران کی جانب سے سہولت کاری کا کرداراداکیاہے۔مذکورہ افسران میں سب سے زیادہ تعداد پولیس ،دوسرے نمبر پر لیویز جبکہ تیسرے نمبر پر کسٹمز اہلکاروں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2023میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ اپنے عروج پر پہنچی جب یومیہ 1ایک کروڑ لیٹر سے زائد تیل اسمگل کیا جاتا رہا تاہم بعد ازاں نگران حکومت کے دور میں جب عسکری اداروں کی تعاون سے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاﺅن کا آغاز کیا گیا تو ایرانی تیل کی اسمگلنگ کم ہوکر 55لاکھ لیٹر یومیہ سے گر چکی تھی ۔تاہم عام انتخابات کے بعد اب یہ اسمگلنگ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور یومیہ 89لاکھ لیٹرز سے زائد تیل اسمگل کرکے لایا جا رہا ہے۔

اسمگلنگ نیٹ اورک اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند دہشت گردتنظیمیں بی ایل ایف ،براس، بی این اے،بی ایل اے مجید بریگیڈ گروپ بھی منسلک ہیں ۔رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کی ادائیگیاں حوالہ ہنڈی سے کی جا رہی ہیں ۔جبکہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پنجاب،کے پی کے، سندھ اوربلوچستان کے 105اسمگلروں نے حصہ لیا۔

فہرست میں دی گئی تفصیلات کے مطابق ان اسمگلروں میں 26کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 11اسمگلر سندھ سے ہیں اسی طرح سے 7اسمگلروں کا تعلق خیبر پختونخواہ جبکہ سب سے زیاد 57اسمگلروں کا تعلق بلوچستان سے ہے .

سندھ سے تعلق رکھنے والی اسمگلروں میں محمد ابراہیم پٹھان ،کامران حسین ،عبدالمجید شاہ،سید غلام شبیر،عطاءاللہ کھوسو،تمیز کورائی،بہاول جاگیرانی،رفیق احمد ،عبید گھوٹو،اشرف آرائیں ،بلاول جھامرو،جاوید کھوسو شامل ہیں۔

اسمگلنگ کی سہولت کاری میں ملوث 100لیویز ،پولیس اور کسٹمز افسران میں سے 15کا تعلق پنجاب ،7کا تعلق سندھ ،6کا تعلق خیبر پختونخواہ اور 71کا تعلق بلوچستان سے بتایا گیا ہے۔

اسی طرح سے سندھ سے اسمگلنگ میں منسلک سرکاری اداروں کی کالی بھیڑوں میں کسٹمز انسپکٹر چوہدری محمد علی،کسٹمز انٹیلی جنس افسر غلام فرید چنا،کسٹمز افسر شہزاد بھیو،کسٹمز افسر سنیل مرتضیٰ ،پولیس افسر میراں بخش ،کسٹمز انٹیلی جنس افسر شاہ محمد شامل ہیں۔

اسمگل کیاجانے والا ڈیزل ملک بھرکے 538پیٹرول پمپس پر مذکورہ ایجنسیوں کے افسران واہلکاروں کی ملی بھگت سے سپلائی جاتارہاہے۔رپورٹ میں ان پمپوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔

دستاویزات کے مطابق ایرانی

پٹرولیم مصنوعا ت بشمول ڈیزل اورپیٹرول پاکستان کو بنیادی طور پر مکران اور رخشان ڈویڑن کے غیر متواتر راستوں سے اسمگل کیا جا رہا ہے۔ ایرانی ڈیزل وپیٹرول کی سالانہ اسمگلنگ 2.8ارب لیٹرہے۔ جس سے قومی خزانہ کو سالانہ227اراب کا نقصان پہنچایاجارہاہے۔ بلوچستان میں اسمگل شدہ ایرانی تیل کو زیادہ تر سڑک کے کنارے غیر مجاز پٹرول آؤٹ لیٹس پر فروخت کیا جاتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق اسمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور کے پی کے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات ایل ای اے کے غیر اخلاقی اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ایرانی تیل کی اسمگلنگ ممکن نہیں ۔کیونکہ اطلاعات کے مطابق سیکڑوں آئل ٹینکرز لاکھوں لیٹر ایرانی آئل لے کر اوتھل، ضلع لسبیلہ سے سندھ جاتے ہیں۔ لیکن روزانہ کی بنیاد پر ان متعدد چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد538غیرقانونی وبغیرلائسنس والے پیٹرول پمپس پر سپلائی کیاجاتاہے جس میں محکمہ کسٹمز،لیویز پولیس اوردیگرایجنسیوںکے 100افسران واہلکا رسہولت کاری کا کرداراداکرتے ہیں۔

علاوہ ازیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے کی جانے والی بڑے پیمانے پرکپڑے کی اسمگلنگ سے بھی قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان اٹھاناپڑرہاہے ،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے دوارب ڈالر سے زائد کا کپڑادرآمدکیاجاتاہے جو افغانستان سے واپس اسمگل ہوکرملک بھی کے 75گوداموں پر ذخیرہ کیاجاتاہے۔

بعدازاں مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیاجاتاہے کپڑے کی اس اسمگلنگ میں99اسمگلراپناکرداراداکررہے ہیں۔جبکہ کپڑے کی اسمگلنگ میں کسٹمزوکسٹمزانٹیلی جنس ،پولیس اوردیگرایجنسیوں کے 55افسران واہلکاروں سہولت کاری کا کرداراداکیا۔