رپورٹ: عمران خان
کراچی: وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے ماتحت ادارے”اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ“ کے کرپٹ افسران نے جانوروں اور جانوروں کے اجزاءسے تیار کردہ سامان کی در آمد چیک کرنے والا نظام مشکوک بنادیا۔ بیرون ملک سے آنے والا سامان فزیکل چیکنگ اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بغیر کلیئرنس کا انکشاف بھی ہوا ہے۔جس کے لئے پاکستان سنگل ونڈو(پی ایس ڈبلیو) کے سسٹم کو بھی بائی پاس کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کلیئر ہونے والی تمام سامان کی کھیپوں کا انیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں دستاویزی ریکارڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ در آمد اور بر آمد کے مکمل اعداد وشمار بھی مرتب نہیں ہوسکتے ۔انہی اعداد وشمار کی بنیاد پر حکومت اور متعلقہ اداروں حساب لگاتے ہیں کہ در آمدی سامان کی ادائیگیوں کے لئے کتنا زر مبادلہ بیرون ملک گیا اور بر آمد ہونے والے سامان کے عوض کتنا زر مبادلہ ملک میں آیا اور کتنا تجارتی خسارا رہا ۔اس کے ساتھ ہی ان کھیپوں کے سرٹیفکیٹس کے عوض جمع ہونے والی سرکاری فیسوں کا اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔جس سے ملکی خزانے کو بھی بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ملک میں جتنی قسم کا سامان در آمد ہوکر آتا ہے یا بر آمد ہو کر باہر جاتا ہے ۔اس کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی کلیئرنس بعض سرکاری اداروں کے سرٹیفکیٹ سے مشروط ہوتی ہے ۔اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے بعد ہی کسٹمز حکام اس سامان کی بندرگاہوں ،ایئر پورٹس ،زمینی سرحدی راستوں سے کلیئرنس دیتے ہیں ۔مثال کے طور پر ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کے لئے ڈریپ ( ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ) اور بعض اہم کیمیکل کے لئے اینٹی نارکوٹیکس فورس کے سرٹیفکیٹ لازمی درکار ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے ملک میںجانوروں کے دودھ ،گوشت اور چمڑے ،چربی یا بال وغیرہ سے تیار کردہ جتنی بھی مصنوعات در آمد ہوتی ہیں یا بر آمد ہوتی ہیں ۔ان کی کلیئرنس کے لئے وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے ماتحت ادارے اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ لازمی درکار ہوتا ہے۔

اس وقت اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سندھ مقبول احمد ہیں ۔جبکہ ان کے ماتحت کورنٹائن افسران اور ایگزامنرز میں ڈاکٹر ضرغام نواز بٹ ،ڈاکٹر زین العابدین ،عارف میمن ڈپٹی ڈائریکٹر اور دیگر اسٹاف کام کر رہا ہے ۔اس پروسس کے لئے ایسا سامان در آمد یا برآمد کرنے والے تاجر اور کلیئرنگ ایجنٹ سامان کی گڈز ڈکلریشن یعنی اس کی برآمد اور در آمد کی متعلقہ دستاویزات بشمول متعلقہ ممالک کی کمپنیوں کی رسیدیں ،متعلقہ ممالک کے اداروں کے سرٹیفکیٹ ،جہاز راں کمپنیوں کی دستاویزات اور بینک کے سرٹیفکیٹ جمع کرواتے ہیں ۔

ان دستاویزات کے جانچ پڑتال کے بعد اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں موجود ایگزامنر اور کورنٹائن افسر جو کہ 18اور 17گریڈ کے ڈاکٹر افسر ہوتے ہیں وہ مذکورہ سامان کے نمونے لے کر ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ۔مشکوک ہونے کی صورت میں ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں ۔اس کے بعد ہی اس سامان کی کلیئرنس کا سرٹیفکیٹ کسٹمز ڈپارٹمنٹ کے لئے تاجروں اور کلیئرنگ ایجنٹوں کو جاری کیا جاتا ہے۔کیونکہ دنیا کے بعض ممالک ایسے ہیں جہاں سے گوشت ،دودھ ،اور جانوروں کی چربی سمیت دیگر اجزاءسے بنی اشیاءکی در آمد پر پابندی ہوتی ہے یا وہ مشکوک ہوتی ہیں اور ان کی چھان بین ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہاں حرام جانوروں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔

ذرائع کے بقول کچھ عرصہ قبل تک ایسا سامان در آمد یا بر آمد کرنے والی تمام کمپنیاں مکمل دستاواینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں جمع کروانے کے بعد ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرتی تھیں۔جس میں سرٹیفکیٹ ملنے میں قدرے تاخیر ہوجایا کرتی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے اس نظام کو جدید اور تیز ترین بنانے کے لئے پاکستان سنگل ونڈو ( پی ایس ڈبلیو ) نافذ کیا گیا ۔اس سسٹم کے تحت اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ ،پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ ،اے این ایف ،ڈریپ سمیت ایسے مختلف سرکاری ادارے اپنے کسٹمز کے لئے مینوئل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بجائے ان کی دستاویزات کی چھان بین کے بعد پی ایس ڈبلیو میں ہی سرٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں ۔اس نظام تک کسٹمز حکام کی براہ راست رسائی ہے اور وہ آن لائن ہی متعلقہ اداروں کی جانب سے پی ایس ڈبلیو میں بھیجے گئے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کرکے سامان کلیئر کر دیتے ہیں۔

ذرائع کے بقول اس نظام کو بھی اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ افسران نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔ذرائع کے بقول جب سے پی ایس ڈبلیو کا سسٹم آیا ہے کئی ایسی کمپنیاں جو کہ روزانہ بنیادوں پر اپنے سامان کے کھیپوں کے لئے اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں آکر اپنے نمائندوں اور ایجنٹوں کے ذریعے سامان کی دستاویزات جمع کروایا کرتی تھیں انہوں نے دفتر آنا چھوڑ دیا ہے تاہم حیرت انگیز طور پر ان کے سامان کی کھیپیں ابھی بھی روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی کنٹینرز پر مشتمل ہیں اور کلیئر ہو رہی ہیں ۔

ان کھیپوں کی کلیئرنس کے لئے کسٹمز حکام کو پی ایس ڈبلیو کے سسٹم میں اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے آن لائن سرٹیفکیٹ بھی موصول ہو رہے ہیں ۔تاہم اس سرٹیفکیٹ کے لئے سامان سے متعلق اہم دستاویزات اور سرکاری فیس وغیرہ جمع کروانے کا کوئی ریکارڈ اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ میں جمع نہیں ہورہا ہے۔نہ ہی ان کی انٹریاں ہو رہی ہیں اور اس سامان کی فزیکل چیکنگ کی جا رہی ہے ۔ایسی ہی کمپنیوں میں ایچ آر برادرز بھی شامل ہیں جن کے ایجنٹ چوہدری سرور ہیں جوکہ بھاری رشوت کے عوض سرٹیفکیٹ حاصل کر رہے ہیں ۔

اس ضمن میں اینمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ ،پی ایس ڈبلیو اور سامان کی کھیپیں کلیئر کروانے والے ایجنٹ کے حوالے سے معاملات کی تصدیق کے لئے مختلف رابطے کئے گئے تاہم ان کے جوابات دینے سے گریز کیا گیا ۔اسی تحقیق کے دوران ذرائع سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس طرح کے معاملات موجودہ ڈائریکٹر مقبول احمد کے علم میں ہیں تاہم وہ ان پر انکوائری سے اس لئے گریز کر رہے ہیں کہ اگر اسلام آباد وزارت کے سیکریٹریٹ تک بات پہنچ گئی تو ان کی نوکری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔انہیں کچھ ہی عرصہ قبل لاہور سے ٹرانسفر کرکے کراچی میں ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ہے اور ابھی ان کے پاس ایک برس کی ملازمت کا عرصہ باقی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد معاملات سامنے آئیں ۔تاہم اس پر مکمل تحقیقات کرکے متعلقہ ادارے تمام ثبوت جمع کرسکتے ہیں اور ایک مضبوط کیس بن سکتا ہے۔

اسی طرح سے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر ضرغام ،نواز بٹ اور ڈاکٹر زین العابدین جن کے ناموں اور دستخط سے رپورٹیں بنتی ہیں اور تصدیقی سرٹفیکیٹ جاری ہوتے ہیں ۔انہوں نے بھی سامان کی چیکنگ اور نمونے حاصل کرنے کے لئے نائب قاصدوں اور ڈرائیوروں کا استعمال شروع کررکھا ہے ۔ان ماتحت ملازمین کو سامان کے نمونے حاصل کرنے اور فزیکل معائنے کے لئے سرکاری گاڑیاں دے کر ملیر کے آفس سے بندرگاہوں کے ٹرمینل پر بھیج دیا جاتا ہے جوکہ سامان کی وڈیوز بنا کر واٹس ایپ پر افسران کو دکھا دیتے ہیں ۔اس طرح سے اہم مرحلہ ایسی سنگین غیر سنجیدگی اور غفلت کی نذر کردیا جاتا ہے ۔