کراچی( رپورٹ: عمران خان ) کسٹمز اپریزمنٹ ونگ کے حکام کی عاجلانہ پالیسی تاجروں کے نقصان اور ٹرمینل انتظامیہ کے بھرپور منافع کا سبب بننے لگی۔
گرین چینل کے ذریعے کلیئر ہونے والی ملکی برآمدات اور درآمد کا آڈٹ شروع ہونے کے بعد پیدا ہونے والی تاخیر کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات کا تمام بوجھ تاجروں پر ڈال دیا گیا۔ دوسری جانب اس آڈٹ سے ٹرمینلز انتظامیہ کو منافع کمانے کا موقع فراہم کردیا گیا۔
واضح رہے کہ ایف بی آر کے تحت کسٹمز ونگ کو گرین چینل کے ذریعے ہونے والی کلیئرنس میں ٹیکس چوری پکڑنے کی ہدایات دی گئیں جس کے بعد اس کے سپر آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس کے نتیجے میں ہونے والی تاخیر اور زائد ادائیگیوں کے امکانات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
تاجر حلقوں کے مطابق محکمہ کسٹمز کی جانب سے گرین چینل کے پیرامیٹرز میں اچانک ردو بدل کرنے سے ہزاروں درآمدی کنٹینرز پھنس کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے درآمدکنندگان کو خطیر مالی نقصانات کا سامنا ہے جبکہ شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کو کروڑوں کا فائدہ ہورہا ہے۔
کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں مزید تاخیر کی صورت میں میڈیکل ڈیوائس، اسٹیل، دالوں سمیت ادویات کی سپلائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس ضمن میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی) کے سابق نائب صدر، ایف پی سی سی آئی کی کسٹمزایڈوائزری کونسل کے چیئرمین اور کسٹمز امور کے ماہر خرم اعجاز نے گرین چینل میں پیشگی اطلاع کے بغیر ردوبدل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان اقدامات کے نتیجے میں درآمدی کنٹینرز کی کلیئرنس تاخیر کا شکار ہونے سے بندرگاہ پر کنٹینرز کے ڈھیر لگنے لگے ہیں۔
خرم اعجاز نے مزید بتایا کہ محکمہ کسٹمز کی جانب سے رسک مینجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) میں بغیر کسی اطلاع تبدیلی کی وجہ سے گرین چینل کلیئرنس میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو پہل47 فیصد سے زیادہ تھی اب 26 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں کلیئرنس کے منتظر درآمدی کنٹینرز کے انبار لگ گئے ہیں جبکہ ایگزامینیشن اور تشخیص کے لیے کنٹینرز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس نے ٹرمینل آپریٹرز، ایگزامینیشن اور تشخیص کرنے والے افسران پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔درآمد کنندگان کو اب کنٹینرز کی گراؤنڈنگ میں 4 دن اور ایگزامینیشن و تشخیص میں مزید 2 سے 3 دن کی غیر ضروری تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر گرین چینل کے پیرا میٹرز میں کوئی ردوبدل کرنا تھا تو کم ازکم اس کی پیشگی اطلاع دی جاتی اورکنسائمنٹس کی کلیئرنس میں تاخیر سے بچنے کے لیے اضافی صلاحیت کے ساتھ افسران کی تعداد بڑھانی چاہیے تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کنسائمنٹس کی کلیئرنس تاخیر ہونے سے نجی ٹرمینل آپریٹرز اور شپنگ کمپنیوں کے لیے ناجائز ڈیمرج چارجز اور کنٹینرز کے کرائے وصول کرنے کے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ درآمد کنندگان کو ہر 5 دن بعد اضافی چارجز اور کنٹینرز کے کرائے ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس سے ان کا خطیر مالی نقصان ہو رہا ہے اور ان کے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے جو بالآخر معیشت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔
خرم اعجاز نے چیئرمین ایف بی آر اور چیف کلکٹر کسٹمز سے درخواست کی کہ وہ اقدامات کے نفاذ اور سہولت کے درمیان توازن قائم کریں تاکہ جائز تجارت کی فوری کلیئرنس کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ90 فیصد سے زائد درآمد کنندگان قوانین پر عمل کرتے ہیں لہٰذا انہیں سزا نہیں دی جائے۔موجودہ حکمت عملی پاکستان کے معاشی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے اور تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششوں کو کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ گرین چینل کلیئرنس کی شرح میں اضافے کے لیے رسک مینجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) میں تبدیلی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، ایگزامینیشن اور تشخیص کرنے والے افسران کی استعداد، صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور اسسمنٹ افسران کو مصروف رکھنے کے بجائے عدالتی امورسے متعلق الگ شعبہ قائم کیا جائے، رسک پر مبنی ایگزامینیشن اور کلیئرنس کے طریقہ کار نافذ کیے جائیں، طریقہ کار کو سہل بنایا جائے اور ریگولیٹری بوجھ کم کیا جائے۔
انہوں نے چیئرمین ایف بی آر اور چیف کلکٹر کسٹمز سے گزارش کی کہ وہ درآمدکنندگان کی شکایات کو نوٹس لیتے ہوئے ان کے مسائل حل کریں تاکہ نفاذ اور سہولت کے درمیان توازن بحال ہو۔
ذرائع کے مطابق محکمہ کسٹمز کی جانب سے گزشتہ دنوں رسک مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے مختص گڈز ڈیکلریشنز کے ایگزامینشن اور اسسمنٹ کے لیے ایک “سپر آڈٹ ٹیم” تشکیل دی گئی ،رسک مینجمنٹ سسٹم روزانہ کی بنیادپر گرین چینل کے ذریعے کلیئرہونے والے 25کنسائمنٹس کوایگزامنیشن کے لئے مختص کرکے سپرآڈٹ ٹیم کودے گا۔ جس پر کلکٹریٹس میں تعینات سپرآڈٹ کی ٹیم اس کی جانچ پڑتال کرکے رپورٹ رسک مینجمنٹ سسٹم کو دے گا اگرکنسائمنٹس میں غلط بیانی کا عنصرپایاگیاتودرآمدکنندہ کے آئندہ آنے والے تمام کنسائمنٹس کی کلیئرنس کو گرین چینل کی سہولت سے ہٹاکرریڈچینل پر کردیاجائے گا۔
ذرائعکےمطابق سپرآڈٹ کا سلسلہ 11نومبرسے ٹیسٹ بنیادوں پر شروع کیاجائے گا جس میں چاروں کلکٹریٹس میں شامل ایس اے پی ٹی، پورٹ قاسم،ایسٹ اورویسٹ کلکٹریٹس سے گرین چینل کے ذریعے کلیئرہونے والے کنسائمنٹس میں سے 25کنسائمنٹس کی جانچ پڑتال کی جائے گی تاکہ گرین چینل کے ذریعے کلیئرہونے والے کنسائمنٹس کی ہونے والے بدعنوانیوں پر قابوپایاجاسکے،سپرآڈٹ ٹیم دوہزارکنسائمنٹس کی جانچ پڑتال مکمل ہونے تک یہ عمل جاری رکھے گی،اورایک تفصیلی رپورٹ ڈائریکٹوریٹ آف ریفارمزاینڈآٹومیشن کوارسال کرے گی۔
ذرائع کے مطابق کراچی کے مختلف کلکٹریٹس سے تیار کردہ ٹیم کے ارکان کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا گیا ہے۔جس میں کلکٹریٹ آف کسٹمز اپریزمنٹ (ویسٹ)، کراچی کی سپر آڈٹ ٹیم میں شامل کلکٹرنوید الٰہی، کلکٹر،ایڈیشنل کلکٹر، عمارہ درانی،اپریزنگ آصف جمیل، عاصم عباس، نقیب اللہ ، فضل محمود جہانگیر،کلکٹریٹ آف کسٹمز اپریزمنٹ (ایسٹ)، کراچی کی ٹیم میں شامل کلکٹر اظہر حسین مرچنٹ ،ایڈیشل کلکٹر امجد امان لغاری ایڈیشنل کلکٹر اپریزنگ آفیسرز فراز احمد ، حبان محی- الدین ، انیس الرحمان کھوسو ، سجاد علی، کلکٹریٹ آف کسٹمز اپریزمنٹ (ایس اے پی ٹی)، کراچی کی سپرآڈٹ ٹیم میں شامل کلکٹر محمد عرفان واحد،ایڈیشنل کلکٹر عمران رزاق ،اپریزنگ آفیسرز عدیل شہاب ، الطاف الرحمان ، غلام محمد بھٹو ، ارسلان بشیر شفیق ، کلکٹریٹ آف کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم کراچی کی سپرآڈٹ ٹیم کلکٹرنیئرشفق،ایڈیشنل کلکٹرریاض حسین،اپریزنگ آفیسرز محمد ریاض ، محمد شکیل ، طارق عثمان، ایلوس ولیم شامل ہیں۔