رپورٹ : عمران خان
اسلام آباد :وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات سرکاری خبر رساں ایجنسی (اے پی پی)میں 12کروڑ روپے سے زائد مبینہ کرپشن اسکینڈل کی ایف آئی اے تحقیقات رکوانے کے لئے سرگرم ہوگئی۔ایف آئی اے میں درج مقدمہ میں ایک درجن سرکاری افسران اور نجی کمپنیاں نامزد ہیں ۔معاملے کو محکمہ جاتی انکوائری میں نمٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایف آئی اے میں یہ تحقیقات کے سرکاری خبر رساں ایجنسی کے نیوز آپریشن کے ڈھانچے کی تنظیم نو کے منصوبے میں من پسند کمپنیوں کو دئے جانے والے ٹھیکوں میں مالی بے ضابطگیاں سامنے آنے پر ایم ڈی اے پی پی کی تحریری درخواست پر شروع کی گئی تھیں ۔
اس میں معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس اسکینڈل کے لئے ایم ڈی اے پی پی کارپوریشن محمد عاصم کھچی کی تحریری درخواست ملنے کے بعد ایف آئی اے نے انکوائری میں تحقیقات کے بعد ثبوت اور شواہد سامنے آنے پرکچھ ہی روز پہلے انسداد بدعنوانی ایکٹ کے سیکشن 5(2) 47 کے سیکشن 409,420,468,471 اور 34 پی پی سی کے تحت مقدمہ الزام نمبر 16/2024درج کر کے مزید تفتیش شروع کردی ہے ۔
اس مقدمہ میں سرکاری خبر رساں ایجنسی کے 6افسران کے ساتھ ہی 5نجی کمپنیوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے ۔جن میں محمد غوث خان (پراجیکٹ ڈائریکٹر) مصور عمران (ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ٹی)سعد مدثر (چیف کمپیوٹر انجینئر)، بلال ظفر (ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر ونگ ایم او آئی بی) ارشد مجید چوہدری (ڈی ڈی او، منیجر اکاو¿نٹس) ضیاءاللہ بھٹو( ڈائریکٹر ایڈمن اینڈپی اینڈ ڈی) کے ساتھ نجی کمپنیاں میسرز تیجاری پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ، میسرز نیو ہورائزن، میسرز کامٹیل، میسرز آرٹیک سسٹم، میسرز میڈیا لنکس شامل ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق اے پی پی کا یہ منصوبہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پی ایس پی ڈی کے ان 28منصوبوں میں شامل تھا جن کے لئے مالی سال 2022اور 2023کے بجٹ میں 1ارب 50کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی ۔جن کے تحت پی ٹی وی ،ریڈیو پاکستان،اے پی پی اور دیگر شعبوں کی صلاحیت ،استعداد بڑھانے کے ساتھ ،آلات کو اپ گریڈ کرنے اور صحافیوں کی تربیت ،فنکاروں اور فلموں کی ترویج کے منصوبے شامل تھے ۔ان میں سے 17منصوبے 2023جون تک مکمل ہونا تھے جبکہ دیگر 11منصوبوں کو مالی سال 2023اور 2024کے بجٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
یہ منصوبہ سابق پی ڈی ایم دور حکومت میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ماتحت شروع کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اب گشتہ روز وزارت اطلاعات و نشریات کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر (ڈیولپمنٹ ) مریم لطیف کی جانب سے اے پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو لکھے گئے خط کے مطابق پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی(ایسوسی ایٹیڈ پریس پاکستان ) کے ایم ڈی کو بتایا گیا کہ اے پی پی کی درخواست پر تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ مراسلے میں مزید بتایا گیا کہ نیوز ایجنسی کے پی ایس ڈی پی منصوبے "نیوز آپریشنز کی تنظیم نو” کے لیے خریداری کے عمل میں مبینہ بے ضابطگیوں کے حوالے سے سے مجاز اتھارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ محکمہ جاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے اس لئے اس معاملے میں دیگر تمام انکوائریاں اورتحقیقات کو معطل کر دیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق چونکہ ایف آئی اے میں اس معاملے پر تحقیقات ایم ڈی اے پی پی کارپوریشن کی تحریری درخواست پر شروع کی گئیں اس لئے اب وزارت اطلاعات و نشریات کے مراسلے میں ایم ڈی اے پی پی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی اے حکام کوتحریری طور پر کہیں کہ وہ وزارت اطلاعات و نشریات کی مدعیت میں اس اسکینڈل کی تحقیقات کو مزید آگے نہ بڑھائیں۔
ذرائع کے بقول اس اسکینڈل میں ملوث افراد وزارت اطلاعات نشریات میں مبینہ طور پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور معلومات کے مطابق اس اسکینڈل میں ملوث نجی کمپنیاں کچھ ملزمان کے رشتہ داروں کی ملکیت ہیں۔اس سے قبل بھی وزارت میں کروڑوں روپے کی کرپشن اور مبینہ بے ضابطگیوں کے معاملات پر جب بھی محکمہ جاتی کمیٹیاں بنی ہیں ۔ایسے افسران اثر انداز ہو کر بچ نکلتے رہے ہیں۔اسمعالے میں بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر ایف آئی اے کی تحقیقات رکوائی گئیں تو محکمہ جاتی انکوائری ممکنہ طور پر بے اثر ثابت ہوسکتی ہے۔