سولر پینل کی در آمد میں 70ارب کی ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں کے خلاف تحقیقات میں کسٹمز کے ساتھ نیب اور حساس ادارے بھی شامل ہوگئے ۔
اس معاملے پر ڈائریکٹوریٹ جنرل پوست کلیئرنس آڈٹ ساﺅتھ کی ٹیموں نے گزشتہ برسوں میں ملک میں سپلائی کے لئے بیرون ملک سے سولر پینل در آمد کرنے والی کمپنیوں کے خلاف ٹیکس چوری کے الزامات پر تحقیقات کیں جن میں بعدازاں اربوں روپے کی ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ اور انڈر انوائسنگ کا اسکینڈل سامنے آیا ۔
مذکورہ تحقیقات میں مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت میں 5برس تک سولر پینل در آمد کرنے والی 63بڑی کمپنیوں کی جانب سے در آمد کی گئی 6ہزار 232کھیپوں کی کلیئرنس کے لئے جمع کروائی گئی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی ۔
اس میں انکشاف ہوا کہ 39کمپنی مالکان کی مالیاتی صلاحیت اور سرمایہ کی مقدار 14ارب روپے کے لگ بھگ تھی تاہم انہوں نے 201ارب روپے مالیت کے سولر پینل در آمد کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ مالیاتی خلاءموجود رہا ۔
تحقیقات میں جب 63کمپنیوں کے بینک ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا ہے کہ 44کمپنیوں کی جانب سے مجموعی ڈپازٹ یعنی 193ارب روپے کا 24فیصد یعنی 47ارب روپے کا ڈپازٹ اس دوران کیا گیا۔اسی دوران 10ارب روپے تک کی رقوم سنگل یعنی ایک ہی ٹرانزیکشن میں ٹرانسفر کی گئی جسے اس بھاری مالیت کے مشکو ک لین دین کا اندازہ ہوتا ہے۔
جبکہ زیادہ تر کمپنیوں کا سالانہ لین دین کا تناسب 20ارب رپے کے لگ بھگ ہوتا رہا ۔جس سے ان کمپنیوں کے مالکان اور ان کے بینک اکاﺅنٹس کے منی لانڈرنگ کے لئے استعمال ہونے کے امکانات بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جبکہ ان مشکوک اور بھاری ٹرانزیکشنز جو کہ کمپنیوں کی مالیاتی حیثیت سے کہیں زیادہ ہیں اس پر اسٹیٹ بینک کے رقوم کے لین دین پر نظر رکھنے والے شعبے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے بھی ریڈ مارکنگ کی گئی ہے۔
تحقیقات میں 22کمپنیاں اور ان کے مالکان ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن کی ترسیلات زر قدر 5کروڑ یا اس سے زائد رہی تاہم انہوں نے سولر پینل کی کھیپوں کے عوض غیر ملکی کمپنیوں کو ادائیگی کے نام پر 16ارب سے زائد متحدہ عرب امارات اور سنگا پور وغیرہ سمیت دیگر ممالکمیں مختلف نجی بینکوں کے ذریعے منتقل کئے۔حالانکہ سولر پینل کی زیادہ تر در آمد چین سے کی جاتی ہے۔اس معاملے میں نجی بینکوں کے نظام کا سقم بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے چینی کمپنیوں کی جانب سے این او سی کی عدم فراہمی کے باجود ترسیلات چین کے بجائے در آمد کنندہ کے کہنے پرتیسرے ملک ٹرانسفر کردئے ۔
مذکورہ تحقیقات کے بعد ڈائریکٹوریٹ جنرل پوست کلیئرنس آڈٹ ساﺅتھ کی جانب سے کئی سفارشارت بھی ہیڈ کوارٹر ز ایف بی آر کے ذریعے حکومتی حکام کو ارسال کی گئیں ۔جن میں بتایا گیا کہ ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ اور اورانوائسنگ کے ذریعے ملک سے قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے کے ان جرائم کو ایسی بوگس کمپنیوں اور ان کے جعلی مالکان کو سامنے رکھ کر کیا گیا جن کے پس پردہ بڑی کمپنیوں کے سیاسی پس منظر رکھنے والے خاندانوں کے بااثر مالکان اور عناصر موجود ہیں۔