رپورٹ: عمران خان
کراچی: اسمگلروں کے خلاف حالیہ کریک ڈاو¿ن میں انکشاف ہوا ہے کہ 95 فیصد مقامی بیکرز، آئس کریم اور جوس کمپنیاں اور دکانیں اسمگل شدہ ایرانی خشک دودھ پاوڈر، کریم زائد المعیاد خشک میوہ جات استعمال کر رہی ہیں۔
ایران سے کئی برسوں سے ہزاروں میٹرک ٹن خشک دودھ پاوڈر، خمیر اور پنیر وغیرہ اسمگل کر کے مقامی کمپنیوں کو سپلائی کیا جارہا ہے۔ جس سے قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں ماہانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ صرف کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اسمگلروں کے بڑے گوداموں سے اب تک سینکڑوں ٹن خشک دودھ،خمیراور وھے پاﺅڈر یعنی دودھ کے پانی کا خشک پاﺅڈر بر آمد ہوچکا ہے۔
اہم ذرائع کے بقول حالیہ دنوں میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس ،کسٹمز انفورسمنٹ اور رینجرز کی جانب سے اسمگلروں کے خلاف کئے گئے آپریشنز میں خفیہ گوداموں ،بسوں اور کنٹینرز سے بر آمد ہونے والے سامان میں روایتی اشیاءجن میں ٹائر ،کپڑے،گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات،کاسمیٹکس اور الیکٹرانک کے علاوہ جو سامان انتہائی زیادہ بھاری مقدار میں بر آمد ہورہا ہے اس میں بعض چیزیں ہر جگہ سے ملنے والے سامان میں یکساں ہیں اور ان کی مقدار بھی دیگر قسم کے سامان سے زیادہ ہوتی ہے ۔
ایسے سامان میں خشک دودھ پاﺅڈر ،دودھ کے پانی کا خشک پاﺅڈر اور خشک خمیر شامل ہے ۔مذکورہ کارروائیوں میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جہاں جہاں سے خشک دودھ پاﺅڈر ،دودھ کے پانی کا خشک پاﺅڈر اور خشک خمیر،خشک دہی ،خشک کریم وغیرہ ملتے ہیں وہیں سے خشک میوہ جات کی بھی بھاری مقدار بر آمد ہورہی ہے۔
اس ضمن میں جب کسٹمز کے متعلقہ فیلڈ فارمیشنز سے معلومات حاصل کی گئیں تو افسران نے بتایا کہ ا س معاملے میں تحقیقات کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ تمام اشیاءچھوٹی بڑی بیکریوں ،ڈبل روٹی،پاپے اور بسکٹ بنانے والی بڑی کمپنیوں کے ساتھ ہی دودھ ،پھلوں اور خشک میوہ جات کے فلیور ولے جو س بنانے والی کمپنیوں اور آئسکریم بنانے والوں کو سپلائی ہو رہا ہے۔
کسٹمز افسران کا کہنا ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں یہ سامان ہر جگہ سے مل رہا ہے اس کے بعد مذکورہ اسمگلروں اور گودام مالکان کے علاوہ سپلائی کرنے والوں سے بھی معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مقامی طور پر 95فیصد سے بیکرز،جوس کمپنیاں اور آئسکریم والے یہی سامان استعمال کر رہے ہیں ۔
اس میں اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ یہ سارا سامان 100فیصد ایران سے اسمگل کر کے لایا جا رہا ہے ۔جبکہ اکثر بڑی مقدار میں یہ سامان ایران سے آنے کے دوران اور یہاں کے گوداموں سے دکانوں اور کمپنیوں تک سپلائی ہونے تک خراب ہوجاتا ہے یعنی اس کی ایکسپائرٰ ڈیٹ پوری ہوجاتی ہے تاہم اس کے باجو د یہی زائد المعیاد خا م مال بیکریوں کے کارخانوں اور کمپنیوں والے اپنی مصنوعات میں استعمال کرکے شہریوں کو روزانہ تازہ ڈبل روٹی ،بن، کیک ،پاپے ،بسکٹس ،کری رول اور دیگر اشیاءکے نام پر دے رہے ہیں ۔
حالیہ کارروائیوں میں صرف کراچی کے گوداموں سے سیکڑوں ٹن خشک دودھ پاﺅڈر ،خشک زائد لمعیاد میوہ جات سمیت دیگر سامان بر آمد ہوچکا ہے ۔جس میں گزشتہ ماہ کے آخر میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی ٹیم نے خفیہ اطلاع ملنے پر پاکستان رینجرز سندھ کی نفری کے ساتھ بلدیہ ٹاﺅن میں یوسف گوٹھ ٹرمینل کے قریب قائمالحمد پرائیوٹ پبلک اسکول پر چھاپہ مارا تو یہاں پر زیر تعلیم بچوں کے بجائے کمروں سے کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان بر آمد ہوا جس کے لئے اس عمارت کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔
مذکورہ کارروائی میں سامان سے بھری ہوئے کمروں سے دیگر سامان کے ساتھ ہی 32ہزار کلو گرام یعنی 32ٹن سے زائد خشک دودھ پاﺅڈر اور وھے پاﺅڈر بر آمد ہواجبکہ ساتھ ہی درجنوںہزاروں کلو گرام چلے ہوئے اور بغیر چھلے ہوئے زائد المعیاد بادام ،پستے ،خشخاش اور اخروٹ ،کھوپرہ اور دیگر خشک میوہ جات ملے۔
اس کے علاوہ 4ستمبر کو کسٹمز انٹیلی جنس نے ڈیرہ اسماعیل خان کے دور دراز مشکل علاقے ڈیرہ زاندہ میں قائم بڑے اڈے پر پاک فوج کے ساتھ آپریشن کرکے سینکڑوں ٹن خشک خمیر اور خشک دودھ پاﺅڈر ضبط کیا ۔
جبکہ 24ستمبر کو کسٹم انفورسمنٹ کلکٹریٹ کراچی کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر پولیس کے خصوصی یونٹ ایس ایس یو کے ساتھ یوسف گوٹھ میں آپریشن کے دوران 9 کروڑ روپے مالیت کا بھاری مقدار میں اسمگل شدہ اور ممنوعہ سامان بر آمد کیا 25کلو گرام والے 4ہزار 800تھیلے بر آمد ہوئے جو کہ 120ٹن بنتا ہے ۔
جبکہ یکم ستمبر کو کراچی موچکوکے علاقے ئیس گوٹھ میں واقع فارم ہاﺅس پر کی جانے والے ایک کارروائی میں 70لاکھ روپے مالیت کے خشک دودھ کے تھیلے بر آمد کئے گئے جوکہ یہاں پر قائم بیکریوں اور کارخانوں کو سپلائی کیا جا رہا تھا ۔ایسی ہی ایک کارروائی میں صادق آباد سے گجرات جانے والے مسافر بس نمبر FDS-776 جب خان پور اڈہ چوک شاہی روڈ پر پہنچی تو خفیہ اطلاع پر اس پر چھاپہ مارا گیا جس میں سے ایران سے اسمگل کئے گئے خشک ودھ کے 50ہزار تھیلے بر آمد ہوئے جوکہ پنجاب کے کارخانوں کو سپلائی کئے جا رہے تھے ۔
جبکہ ایک اور کارروائی میں سٹم انٹیلی جنس ملتان کی ٹیم نے کوٹ ادو میں کیپکو کے قریب تھرمل روڈ پر ایک مکان میں بنے گودام میں چھاپہ مارا توکمروں سے خشک مضرصحت دودھ کے ایک ہزار تھیلے بر آمد ہوئے ۔کسٹمز کے مطابق ،مذکورہ مضر صحت خشک دوددھ گودام میں منتقل کرنے کے بعد کوٹ ادو میں قائم ڈیری فارمز اور آئسکریم پوائنٹس کے کارخانوں کو بھی سپلائی کیا جاتے تھے ۔
اس ضمن میں کسٹمز حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ان تمام بیکری کمپنیوں ،کارخانوں کی تفصیلات لی جا رہی ہیں جوکہ قانونی در آمد کے بجائے اسمگل شدہ سامان خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔کسٹمز افسران کا کہنا تھا کہ چونکہ ایران کے شمالی علاقوں میں تازہ دودھ کو پروسس کرنے والے کئی ایسے پلانٹ ہیں جوکہ دودھ ضائع نہیں ہونے دیتے اور فوری طور پر اس کو پروسس کر کے خشک پاﺅڈر ،کریم ،پنیر وغیرہ بنا لیتے ہیں ۔
حالانکہ پاکستان ایرا ن کے مقابلے میں زیادہ زر خیز ملک ہے اور یہاں پر گائے بھینسوں اور دودھ کی فراوانی ہے تاہم اس کے باجود ناقص حکمت عملی کی وجہ سے زیادہ تر تازہ دودھ ضائع ہوجاتا ہے جسے جدید پلانٹوں کے ذریعے فوری پروسس کرکے پاﺅڈ بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان کی ڈیری صنعت کے ساتھ بیکری صنعت کی تمام ضرورت مقامی طور پر پوری ہوسکتی ہے۔
کسٹمز افسران کے مطابق ایران سے آنے والے خشک دودھ کی 2اقسام ہیں ایک وہ خشک پاﺅڈر ہے جس میں فیٹ یعنی چکنائی موجود ہوتی ہے اور نکالی نہیں جاتی ۔اس پاﺅڈر سے مقامی سطح پر کریم نکال کر آئسکریم کے کارخانے اور بیکریوں والے استعمال کرتے ہیں جبکہ دودھ کے پانی کے پاﺅڈر جس کو وھے پاﺅڈر کہا جاتا ہے اس میں سے فیٹ اور کریم وغیرہ پروسس کر کے نکال دی جاتی ہے۔اسی وجہ سے اسے بیکریوں والے اپنے بریڈ ،رسک ،بسکٹس او ددیگر ایسے ہی مصنوعات میں استعمال کرتے ہیں ۔جن میں بغیر کریم اور فیٹ کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر بیرون ملک سے قانونی طریقے سے در آمد اسکمڈ ملک پاﺅڈر اور وھے پاﺅڈر در آمد کرکے کمرشل در آمد کنندگان بیکری کارخانوں اور کمپنیوں کو سہلائی کرتے ہیں تو اس پر 60فیصد ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں جس کے بعد یہ وارے کسی کو بھی وارے میں نہیں پڑتے یہی وجہ ہے کہ اسمگلروں سے لے کر استعمال کرنے والوں تک ایران سے اسمگل ہوکر آنے والے سامان کو ترجیح دے رہے ہیں ۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ععاملے پر پالیسی بنا کر حکومت اربوں روپے کے ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کرسکتی ہے اگر ایران سے اسمگل ہوکر آنے والے اس بیکری کے خام مال کو قانونی در آمد کو بڑھا دیا جائے تو مقامی کارخانے اور فیکٹریوں والے از خود کمرشل بنیادوں پر اسے منگواسکتے ہیں جس کے بعد اسمگلروں کا کردار کم ہوسکتا ہے ۔