رپورٹ:عمران خان
اسلام آباد
غیر ملکی کرنسی مافیا کے خلاف ایف آئی اے میں ڈیڑھ صدی پرانے قانون کے تحت بننے والے کیسوں میں اصل ملزمان کو ریلیف دینے اور کرپشن کی اطلاعات پر ایسے کیسوں کی مانیٹرنگ شروع کردی گئی۔ حوالہ ایجنٹوں کے کلائنٹ شہریوں کو بھی مقدمات کا حصہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
تاہم یہ اقدام ٹھوس کیس بنانے کے لئے ناکافی سمجھا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی حوالہ ہنڈی کیسوںمیں فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ کے پرانے قوانین اور روایتی قوانین شہادت کی وجہ سے ملزمان کے خلاف مضبوط کیس بنانے کے حوالے سے تفتیشی افسران کو پیش آنے والی مشکلات اور کیسوں میں رہ جانے والی کمزوریوں کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے کے تحت ڈالرز سمیت غیر ملکی کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کرنے والے ملزمان کے خلاف حوالہ ہنڈی کے مقدمات فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ کی دفعات کے تحت قائم کئے جاتے ہیں یہ قانون قیام پاکستان سے قبل بر صغیر میں انگریزوں کے زمانے میںفارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ انڈیاکے نام سے نافذ کیا گیا تھا اس ڈیڑھ صدی سے زائد پرانے قانون کو ہی قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس کو جوں تو ں رکھ کر صرف آخر میں پاکستان لکھ کر نافذ رہنے دیا گیا ۔گزشتہ 70سے زائد برسوں سے ملک میں کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف اسی فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ 1947کے تحت قائم کئے جا رہے ہیں ۔
ذرائع کے بقول قیام پاکستان کے وقت بھارت اور بعد ازاں بنگلہ دیش میں بھی کرنسی کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث اور حوالہ ہنڈی ایجنٹوں کے خلاف یہی قانون استعمال کیا جا تا رہا تاہم ان ممالک نے 1970کی دہائی سے لے کر2000کی دہائی تک اس قانون میں متعدد اہم تبدیلیاں کرکے اس کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ اب ان ممالک میں اس کے نام بھی تبدیل کرکے اس قانون کو ملکی معاشی استحکام سے جوڑ کر انتہائی مضبوط کردیا گیا۔جس کے تحت اب ایسے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں کہ ملوث ملزمان بھاری جرمانوں اور لمبی سزاﺅں کے نتیجے میں کنگال ہو کر اس کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں اور ان کے بنائے گئے اثاثے بھی حکومت ضبط کرلیتی ہے ۔
ایف آئی اے میں آپریشن ،انویسٹی گیشن اور لیگل ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے 20سے 30برسوں سے زائد کا تجربہ رکھنے والے متعدد افسران نے امت کو بتایا ہے کہ اس وقت ملک میں جو معاشی صورتحال ہے اس کے نتیجے میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والے اور حوالہ ہنڈی ایجنٹ قیمتی زرمبادلہ سے ملک کو محروم کرکے غداری جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ کیونکہ ایسی حالت میں ملکی استحکام ،دفاع کا معاشی صورتحال سے گہرا تعلق ہے ۔
یہی وجہ ہے حکومتی اور ریاستی ادارے جب بھی ایف آئی اے سے ملک بھر میں حوالہ ہنڈی ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرواتے ہیں تو یہ کارروائیاں اسی پرانے بوسیدہ فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ کے تحت کی جاتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ایسی صورتحال میں اب ان ملزمان کے خلاف قوانین کو نئے زمانے سے ہم آہنگ کرنا اور لمبی سزاﺅں اور بھاری جرمانوں کو ان میں شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہی حوالہ ہنڈی کے کیسوں میں قوانین شہادت میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پرانے زمانے میں جب حوالہ ہنڈی کے لئے تحریری پرچیاں اور رجسٹرڈ استعمال ہوا کرتے تھے اس وقت یہ دستاویزی ثبوت عدالتوں میں پیش کئے جاتے تھے تاہم اب نئے زمانے میں حوالہ ہنڈی کے ملزمان نے اپنی وارداتوں کے لئے انٹر نیٹ ،ای میل ،واٹ ایپ سے الیکٹرانک ٹریول ٹرانزیکشنزبھیجنے جبکہ بعد اوقات صرف زبانی پیغام بھیج کر جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں یہ قوانین ان جرائم کا اھاطہ کرنے میں غیر موثر ہونے لگے ہیں ۔ایسی صورتحال میں بعض اوقات صرف حوالہ ایجنٹوں کی ایک دوسرے کو کی گئی کالوں کا ریکارڈ ہی اس ٹرانزیکشن کا ثبوت ہوتا ہے جس کو موجودہ قوانین کے تحت عدالتیں بسا اوقات قبول کرنے سے گریز کرتی ہیں ۔
اس معاملے کی تفصیلات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے متعدد سینیئر افسران نے بتایا کہ ملک میں کرنسی کا لین دین صرف وہی کرنسی ایکسچینج کمپنیاں کر سکتی ہیں ۔جولائسنس لیتی ہیں یہ لائسنس اسٹیٹ بینک کا ایکسچینج پالیسی ڈپارٹمنٹ ( ای پی ڈی ) دیتا ہے اور وہی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کی مانیٹرنگ کا بھی ذمے دار ہے کہ قانونی کاروبار کی آڑ میں کہیں غیر قانونی سرگرمیاں تو نہیں کی جا رہی ہیں ۔حالیہ عرصہ میں ایف آئی اے کے ملک بھر کے اینٹی کرپشن سرکل، کمرشل بینکنگ سرکل اورکارپوریٹ کرائم سرکلوں میں حوالہ ہنڈی میں ملوث ؓبغیر لائسنس کے کام کرنے والے غیر قانونی ایجنٹوں کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک سے لائسنس یاففتہ ایکسچینج کمپنیوں کے دفاتر کے خلاف گزشتہ برسوں میںہزاروں مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔
ان مقدمات میں ابتدائی طور پر جن حوالہ ایجنٹوں ،ایکسچینج کمپنیوں کے ملازمین کو گرفتار کرکے نامزد کیا گیا بعد ازاں تفتیش بھی انہی تک محدود رکھ کر عدالتوں میں چالان جمع کروادئے گئے ۔حالانکہ ایف آئی اے افسران کو ان تمام کیسوں میں ایجنٹوں سے ان لاکھوں شہریوں کے کوائف ملے جن میں تاجر ،عام شہری ،سیاستدان ،سرکاری افسران ،ڈاکٹرز وغیرہ شامل تھے جوکہ کئی دہائیوں سے زر مبادلہ بینکوں کے بجائے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں ۔
تاہم انہیں کارروائی میں شامل نہیں کیا گیا ۔بلکہ ان شہریوں کو تفتیش میں شامل کرنے کے نام پرپوچھ تاچھ کے لئے نوتس بھی بھیجے جاتے ہیں تاکہ مذکورہ شہری آکر اپنا بیان دیں کہ انہوں نے حوالہ ایجنوں سے زرمبادلہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک کیوں منتقل کیاتاہم بعد ازاں ان سے رشوت وصول کرکے ان شہریوں کو چھور دیا جاتا ہے اور یوں ایسے اب تک ہزاروں کیسوں میں ایسے لاکھوں کی تعداد میں ملک سے اربوں ڈالرز ایجنٹوں کے ذریعے حوالہ ہنڈی کرانے والے ہزاروں تاجروں، سرکاری افسران اور عام شہریوں کو تحقیقات میں شامل کرنے کی آڑ میں اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا گیا ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی کارروائیوں سے وفاقی حکومت جو اصل مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ ان کیسوں پر مکمل اور شفاف تحقیقات سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اصل چیز قوانین کو نافذ کرکے حکومت کی رٹ کو بحال کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ شہری حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے سے گریز کریں اور اندرون ملک اور بیرون ملک بینکنگ چینل سے ہی اپنی رقوم کی ترسیل کریں۔ تاہم جب ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش کو صرف گرفتار ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ جس سے گزشتہ کئی دہائیوں سے زر مبادلہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوانے والے شہریوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اسی ایجنٹ کے باہر آنے کے بعد اس سے دوبارہ کام کرواتے ہیں یا پھر مارکیٹ میں کوئی دوسرا آدمی تلاش کرلیتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں ایسی درجنوں اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ایف آئی اے افسران پر الزامات لگے کہ انہوں نے حوالہ ہنڈی کے نام پر کارروائیوں کے دوران کروڑوں روپے مالیت کی کرنسی چھپا لی یا پھر کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرکے کارروائی کو ہی دبا دیا گیا اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض تفتیشی افسران نے مخبروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے کارورائیوں کی مصدقہ اطلاعات دینے کے نام پر کمیشن کی رقم 5فیصد سے بڑھا کر 15سے 20فیصد تک کرکے علیحدہ کرلی جس میں بعض وارداتوں میں سرکل انچارج اور زونل افسران شامل رہے۔