رپورٹ : عمران خان
کراچی:ٹرانزٹ ٹریڈ کے ہزاروں کنٹینرز کی ٹریکنگ سیلز کی سپلائی اور استعمال کے معاملے میں بڑا گھپلا سامنے آگیا۔ کسٹمز انٹیلی جنس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ آئی سی آئی ایل پاکستان کمپنی (ICIL Pakistan) اور ٹی پی ایل ٹریکر کمپنی(TPL Trakker) کے مابین معاملات انتہائی مشکوک نکلے۔ تحقیقات میں ٹریکنگ سیلز میں اسمگلنگ، جعلسازی کے اہم شواہد مل گئے۔ تحقیقات میں آئی سی آئی ایل پاکستان ٹیکنالوجی کمپنی کے مالکان ،ڈائریکٹرزاور شراکت داروں کو نامزد کرکے ان کی گرفتاریوں کے لئے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ آرمی چئیف اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر ملکی معاشی حالات کو مستحکم کرنے کی پالیسی کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں جاری اسمگلروں کے خلاف مسلسل کریک ڈاﺅن میں روزانہ نت نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔جن میں معلوم ہورہا ہے کہ گزشتہ برسوں میں اسمگلروں کو اربوں روپے کے ناجائز منافع کے لئے کس طرح سے نت نئے انداز میں سرکاری اداروں کے افسران اور نجی کمپنیوں کے مالکان سہولت کایاں فراہم کرتے چلے آئے ہیں ۔پاکستان میں ڈیڑھ دہائی سے افغان ٹرانزٹ کھربوں روپے کی اسمگلنگ کا ذریعہ بنایا گیا ۔جس میں شامل ان گنت کنگلے اسمگلر ،تاجر ،نجی کمپنیاں اور سہولت کار سرکاری افسران ارب پتی بن چکے ہیں ۔جبکہ قومی خزان مسلسل نقصان میں ہے۔
دستاویزات سے معلوم واہے کہ رواں برس 22ستمبر کو ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس ایڈ انویسٹی گیشن کراچی کی ٹیم نے اسمگلروں کی سگرمیوں کی اطلاع پر بدلیہ ٹاﺅن یوسف گوٹھ ٹرمینل کے قریب 100فٹ روڈ کی گلی نمبر 14میں قائم الحمد پرائیویٹ پبلک اسکول پر رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ کارروائی کی جہاں سے کروڑں روپے کے دیگر قسم کے سامان کے ساتھ 8589آر ایف آٓئی ڈی سیلز(RFID Tracking Seals)بھی ملیں ۔
یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد ریکوری تھی اور سنگین معاملہ تھا ۔جس کو پرکھتے ہوئے ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی انجینئر حبیب نے اس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی منی لانڈرنگ ونگ سعود حسن کی ٹیم کو علیحدہ سے باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کو آگے بڑھانے کا ٹاسک دیا ۔کیونکہ سیل ٹریکنگ سیلیں اسمگلروں کے ہاتھ میں ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ راستے میں کنٹینرز کھولے جاتے ہیں اور اربوں کا سامان مقامی مارکیٹوں میں سپلائی کرکے سیلیں دوبارہ لگا دی جاتی ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق آر ایف آٓئی ڈی سیلز(RFID Tracking Seals)پاکستان میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے کراچی بندرگاہوں کے ٹرمینل سے کلیئر ہوجر افغانستان اور خشک گودیوں پر ٹرانسشپمنٹ پرمٹس کے تحت جانے والے سامان کے کنٹینرز کے لئے استعمال کی جاتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ راستے میں ان کنٹینرز کو کھول کر وہ قیمتی سامان نکال کر مقامی مارکیٹوں میں اسمگل نہ کیا جاسکے جس پر کروڑوں روپے کے ڈیوٹی اور ٹیکس لاگو ہوتے ہیں اور اس قیمتی سامان کی جگہ کم مالیت کی فالتو اشیاءبھر کر افغانستان اور خشک گودیوں تک نہ پہنچائی جاسکیں۔
ذرائع کے بقول پاکستان کسٹمز کے تحت کلیئر ہونے والے ان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز پر یہ آر ایف آئی ڈی سیلز لگانے کا ٹھیکہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ ٹی پی ایل ٹریکر کمپنی کے پاس جس کے عوض یہ کمپنی سالانہ بھاری فنڈز حاصل کرتی ہے ۔اب اس کمپنی نے صرف گزشتہ کچھ برسوں میں اتنی کاروباری ترقی کرلی ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار اور سرمایہ کاری کراچی سے پورے پاکستان تک پھیل گئی ہے جبکہ اس کمپنی کے مالکان نے اب دیگر قسم کے شعبوں بشمول رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی ،آئی ٹی وغیرہ میں بھی اربوں روپے کی سرمای کاری کر لی ہے۔
دستاویات سے معلوم ہوا ہے کہ کسٹمز انٹیلی جن کی ٹیم کوگودام بنائے گئے مذکورہ پرائیویٹ اسکول پر زین العابدین نام کا شخص ملا جس کو حرست میں لے کر تفتیش شروع کی گئی تو اس نے انکشاف کیا کہ اس کو یوسف گوٹھ ٹرمینل کے ایک شخص وقاص آغا نے اس گودام پر ملازم رکھا تھا ۔زین العابدین نے مزید بتایا کہ یہاں پر وقاص آغانے اکو بلوچ نامی ایک چوکیدار کو بھی رکھا تھا جس کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔اس کو اکو بلوچ نے بتایا کہ اس گودام میں وقاص آغا کے علاوہ حسین ماما ،اچکزئی اور علیم نامی افراد آتے جاتے رہتے ہیں یہ سارے سامان لے کر آتے ہیں اور سپلائی بھی کرتے ہیں ۔جبکہ وقاص آغا ہر سامان اور اس کے مالکان ،سپلائرز اور ٹرانسپورٹرز کا حساب کتاب اور کوائف ایک رجسٹرڈ میں رکھتا ہے جو وہ اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔
چونکہ ٹریکنگ سیل لگانے اور استعمال کرنے کی ذمے داری ٹی پی ایل کمپنی کے پاس ہے اس لئے کسٹمز انٹیلی جنس کی ٹیم نے مذکورہ ہزاروں ٹریکنگ سیلوں کا ریکارڈ اور سیریل نمبر لے کر ٹی پی ایل کمپنی کے ہیڈ آفس میں موجود افسران سے تفتیش کا آغاز کیا ۔ان ٹریکنگ سیلز پر چونکہ پاکستان کسٹمز کا لوگو چسپاں تھا اس لئے یہ تصدیق ہوچکی تھی کہ انہیں ٹی پی ایل کے ذریعے کنٹینرز کے لئے ہی استعمال کیا جانا تھا ۔تفتیشی ٹیم کو ٹی پی ایل کمپنی کی انتظامیہ نے بتایا کہ وہ خود یہ ٹریکنگ سیلیں بیرون ملک سے در آمد کرکے استعمال کرنے کے بجائے ایک تھرڈ پارٹی یعنی آئی سی آئی ایل ٹیکنالوجیز کمپنی سے ایک وینڈر کی حیثیت سے یہ سامان حاصل کرتے ہیں۔
کورنگی صنعتی ایریا میں قائم ٹی پی ایل ٹریکر کمپنی کے ہیڈ آفس سے کسٹمز کو ملنے والے ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اب تک آئی سی آئی ایل کمپنی ٹی پی ایل کو 1لاکھ 26ہزار سے زائد ٹریکنگ سیلیں فراہم کرچکی ہے۔کسٹمز کی جانب سے ٹی پی ایل کمپنی سے ان ٹریکنگ سیلوں کی درآمدی دستاویزات طلب ی گئیں تو کمپنی کے نمائندگی کرتے ہوئے ریٹائرڈ لفٹیننٹ کرنل رانا عاطف نثار کسٹمز میں پیش ہوئے جنہوں نے بیان دیا کہ ٹی پی ایل کی جانب سے متعدد بار مانگنے کے باجود آئی سی آئی ایل کمپنی نے درآمدی دستاویزات فراہم نہیں کیں جبکہ ٹی پی ایل آئی سی آئی ایل کمپنی مالکان کو اس سپلائی کی مد میں اب تک 16کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کرچکی ہے جس کی بینکنگ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موجود ہے۔
اس پر کسٹمز انٹیلی جنس کی ٹیم نے آئی سی آئی ایل پاکستان کمپنی جس کا ہیڈ آفس ڈیفنس فیز ٹو میں خیابان اتحاد روڈ پر پلٹ نمبر C-6آئی سی آئی ایل سینٹر نامی بلڈنگ میں قائم ہے سے رابطہ کیا ۔تحقیقات میں یہ دیکھا گیا کہ آئی سی آئی ایل کمپنی کی جانب سے کتنی تریکنگ سیلیں اب تک قانونی طور پر در آمد کی گئیں اور کتنی سیلیں ٹی پی ایل کمپنی کو فراہم کی گئیں ۔
کسٹمز کی ٹیم کی جانب سے آئی سی آئی ایل کمپنی کے ہیڈ آفس میں چھان بین کے لئے مجسٹریٹ سے سرچ وارنٹ لے کر وزٹ کیا گیا جہاں عاصم پاشا نامی اسسٹنٹ ٹیکنیکل افسر سے ٹی پی ایل کو فراہم کی گئیں 1لاکھ 26ہزار ٹریکنگ سیلوں کا ریکارڈ طلب کیا گیا ۔اس سے 1لاکھ 9ہزار سے زائد سیلیں ٹی پی ایل پہلے ہی استعمال کرچکی جبکہ 16ہزار سے زائد سیلوں کا ڈیٹا کی چھان بین کی گئی جس پر عاصم پاشا کی جانب سے کسٹمز ٹیم کو آئی سی آئی ایل کے سینئر جنرل منیجر طاہر زیدی کے پاس بھیجا گیا ۔
طاہر زیدی سے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ آئی سی آئی یل کمپنی نے ہزاروں ٹریکنگ سیلیں قانونی در آمد کے بجائے پینٹا یکسپریس کمپنی، لاہور کی اے ایچ ٹریڈرکمپنی عمیرآصف ٹیپو،شارع فیصل پر بی بی سی بلڈنگ کے سیکنڈ فلور پر دفتر رکھنے والے سلیم صدیقی اور شہزاد سے حاصل کیں جوکہ سمندر کے راستے مختلف سامان میں چھپا کر مس ڈکلریشن سے کلیئر کروائی گئیں۔یہ ساری جعلسازی آئی سی آئی ایل کمپنی کے مالک یاسر مفتی ،طاہر زیدی اور شہزاد کے علم میں تھی تاہم یہ افراد اس کی در آمد کی قانونی دستاویزات پیش نہیں کرسکے۔ اس اسکینڈل میں ایک جانب کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کی گئی۔جبکہ ٹریکنگ سیلیں اسمگلروں کے ہاتھ میں دے کر ٹرانزٹ ٹریڈ کو غیر محفوظ بنادیا گیا۔
تحقیقات میں جہاں یہ معلوم ہوا کہ بلدیہ کے گودام سے ملنے والی 8ہزار 500سے زائد ٹریکنگ سیلیں اسمگل کرکے لائی گئیں وہیں یہ معلوم ہوا کہ آئی سی آئی ایل کی جانب سے اب تک ٹی پی ایل کو فراہم کی گئیں 1لاکھ 26ہزار سے زائد سیلوں میں سے 27ہزار سے زائد سیلوں کا در آمدی ریکارڈ ہی آئی سی آئی ایل کے پاس موجود نہیں یعنی یہ بھی مس ڈکلریشن کے ذریعے اسمگل کرکے لائی گئی ہیں ۔
اس ضمن میں گزشتہ روز ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ڈائریکٹر انجینئر حبیب کی نگرانی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی منی لانڈرنگ ونگ کے سعو د حسن کی سربراہی میں تفتیشی افسر اظہر عظیم نے مقدمہ کی تفتیش میں اپنا عبوری چالان عدالت میں جمع کروادیا ۔
اس رپورٹ میں آئی سی آئی ایل پاکستان کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر یاسر مفتی جو کہ مفرور ہیں ان کے ساتھ آئی سی آئی ایل ٹریک اور انفارمیشن کمپنی کے دیگر ڈائریکٹرز اور شراکت دارعہدیدار وں کے علاوہ آئی سی آئی ایل کمپنی کے سینئر جنرل منیجر طاہر زیدی اور لاہور کے داتا گنج بخش روڈ پر قائم رضا مارکیٹ کے قریب دفتر رکھنے والی اے ایچ ٹریڈرز کمپنی کے عمر آصف عرف ٹیپو کو عبوری چالان میں مرکزی ملزمان قرار دے کر مزید تفتیش شروع کردی گئی ہے۔