رپورٹ : عمران خان
اسلام آباد — فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مالی سال 2024-25 کے اختتام پر مقررہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں برے طریقے سے ناکام رہا ہے۔جس سے نہ صرف ریوارسسٹم یعنی افسران کو نعام کے طور پر اضافی مراعات دینے کی اسکیم پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں بلکہ ملکی معیشت اور مالیاتی نظم و ضبط کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، رواں مالی سال کے لیے ٹیکس وصولی کا اصل ہدف 12,977 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، تاہم ایف بی آر محض 11,500 ارب روپے کے لگ بھگ ہی ریونیو اکٹھا کر پائے گا، جس سے تقریباً 1,470 ارب روپے کا تاریخی شارٹ فال سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، مالی سال کے دوران دو مرتبہ ایف بی آر کے ریونیو ہدف پر نظرثانی کی گئی۔ پہلے مرحلے میں یہ ہدف 12,332 ارب روپے تک کم کیا گیا، تاہم اس کے باوجود ایف بی آر اس سطح کو بھی عبور کرنے میں ناکام رہا۔ دوسری نظرثانی کے بعد ہدف مزید کم کر کے 11,980 ارب روپے رکھا گیا، لیکن اس کے مقابلے میں اب تک صرف 11,280 ارب روپے وصول ہو سکے ہیں۔ آج مالی سال کا آخری دن ہے، اور ایف بی آر کو بقیہ ہدف مکمل کرنے کے لیے 620 ارب روپے مزید جمع کرنے ہوں گے، جو موجودہ حالات میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سال کے اختتام پر ایف بی آر کی مجموعی وصولی 11,500 ارب روپے کے قریب ہوگی، جو دوسرے نظرثانی شدہ ہدف سے بھی 480 ارب روپے کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شارٹ فال نہ صرف بجٹ خسارے میں اضافے کا باعث بنے گا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جاری مذاکرات پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے، بالخصوص انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) جیسے اداروں کی نظر میں پاکستان کی مالیاتی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کئی سالوں سے موجود ہیں، تاہم اس بار کا شارٹ فال خاص طور پر تشویشناک ہے۔ اس ناکامی کی وجوہات میں ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ توسیع نہ ہونا، معاشی سرگرمیوں میں سست روی، بار بار کی سیاسی تبدیلیاں، ادارہ جاتی صلاحیت کی کمی، اور مؤثر ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے فقدان جیسے عوامل شامل ہیں۔
اقتصادی ماہرین اور بین الاقوامی ڈونر ادارے ایف بی آر میں بنیادی اصلاحات، ٹیکس نظام کی شفافیت، اور وصولی کے ڈیجیٹل میکنزم کو بہتر بنانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اس تاریخی شارٹ فال کے بعد یہ آوازیں مزید بلند ہو سکتی ہیں کہ جب تک ادارہ جاتی اصلاحات نہیں کی جاتیں، پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ بحران کا شکار ہی رہے گا۔