عمران خان
غیر ملکی سفارت خانوں کے نام پر در آمد ہونے والے سامان میں اسمگلنگ کی بڑی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں میں اسپین ،سعودی عرب اور قطر کے سفارت خانوں کے نام پر در آمد ہونے والے 3کنٹینرز میں سے 50کروڑ روپے مالیت کی غیر ملکی شراب ،لیپ ٹاپ ،موبائل مفونز،آئی پیڈ اور دیگر الیکٹرانک کا ساما ن اور کھانے پینے کی اشیائ بر آمد ہوچکی ہیں۔
صول ہونے والی معلومات کے مطابق تحقیقات میں غیر ملکی سفارت خانوں کی آفیشل آئی ڈیز استعمال ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔پورٹ قاسم اپریزمنٹ کلکٹریٹ کی ٹیم کی جانب سے شروع کی جانے والی تحقیقات میں اب کسٹمز کے مختلف فیلڈ فارمیشنز کے ساتھ حساس ادارے بھی تفتیش میں شامل ہوگئے ہیں۔اسکینڈل میں تحقیقات کا دائرہ کار کراچی سے اسلام آباد تک وسیع کردیا گیا ہے جس میں اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں ،در آمد کمپنیوں کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کے متعلقہ افسران اور غیر ملکی سفارت خانوں میں ملازمت کرنے والے مقامی سہولت کاروں کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں ماما حفیظ کا بیٹا خالد حفیظ فرنٹ مین کے طور پر اس اسکینڈل میں ملوث سامنے آیا ہے جس کے حوالے سے شواہد سامنے آچکے ہیں۔دوسری جانب ابتدائی طور پر سامنے آنے والے معیذ باوانی اور کاشف بھیاعرف کاشف چھوٹو کے حوالے سے تحقیقات میں کسی قسم کے شواہد نہیں مل سکے۔ جس کے بعد کسٹمز کے تفتیشی افسران نے معیذ باوانی اور کاشف بھیاعرف کاشف چھوٹو کو اس اسکینڈل سے کلیئر قرا ر ددے دیا ہے کہ یہ دونوں افراد اس اسکینڈل میں ملوث نہیں ہیں۔جبکہ مزید تحقیقات میں گرفتار ملزمان اور استعمال ہونے والی در آمد کنندہ کمپنیوں کے مالکان کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد غیر ملکی شراب اسمگلنگ کے اہم کردار نوید یامین کے حوالے سے چھان بین شروع کردی ہے۔نوید یامین پورٹ قاسم اپریزمنٹ کے ٹرمینل سے گزشتہ برس ایک غیر ملکی سفار خانے کے نام پر 20کروڑ روپے سے زائد مالیت کی غیر ملکی شراب کے 2کنٹینرز کلیئر کروانے کے 2مقدمات کی تفتیش میں شامل رہا جبکہ بعد ازاں مشہور زمانہ لندن سے چوری ہو کر کراچی میں رجسٹرڈ ہونے والی 35کروڑ مالیت کی بنٹلے کار کیس کا بھی مرکزی کردا رہا۔
ملنے والی معلومات اور دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ماہ اس پر تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے حکام کو اطلاع موصول ہوئی کے اسپین کے سفارت خانے کے نام پرگھریلو استعمال کی اشیائ کی آڑمیں منگوائے گئے کنٹینرکے حوالے سے مشکوک دستاویزات جمع کروائی گئی ہیں۔ان دستاویزات میں ظاہر کیا گیا کہ گیر ملکی سفارت خانے کی جانب سے متحدہ عرب امارات سے گھریلو اشیائ کا سامان اپنے استعمال کے لئے منگوایا ہے جسے غیر ملکی سفارت خانوں کے لئے جاری وزارت داخلہ کی ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ پر کلیئر کروایا جارہا ہے۔جس کے بعد اس معاملے پر مزید تحقیقات کے لئے ڈپٹی کلکٹر آدرش جواہر نے پرنسپل اپریزر عمران گل، محمد بلال اور تفتیشی افسر نجیب عابد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی۔اس معاملے کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ اس کنٹینرز کو کلیئر کروانے کے لئے شمس ٹریڈنگ کمپنی کی جانب سے گڈز ڈکلریشن جمع کروائی گئی تھی۔تاہم جب متعلقہ سفارت خانے سے تصدیق کے لئے وفاقی وزارت خارجہ کے ذریعے تحریری طور پر رابطہ کیا گیا تو سفارت خانے کے حکام نے ایسے کسی بھی کنٹینرز سے لاعلمی کا اظہار کیا۔مذکورہ دستاویزات پر مزید جانچ پڑتال کی گئی توسفارت خانے کی جانب سے کسٹمز حکام کو آگاہ کیا گیا کہ انہوں نے گھریلو استعمال کی اشیائ کا کنٹینرز منگوایا تھا تاہم اس کو انہوں نے اپنے مجاز کلیئرنگ ایجنٹ کے ذریعے 27جون 2023کو پورٹ قاسم کے بجائے کراچی پورٹ کے سا?تھ ایشیائ کنٹینرز ٹرمینل سے کلیئر کروا کر سفارت خانے کے لئے منگوا لیا تھا۔
مذکورہ معاملے پر تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ جن دستاویزات پر اس کنٹینرز کو کلیئر کروایا جا رہا تھا۔ان میں ظاہری طور پر سفارت خانے کی جانب سے پہلے وکنگ شپنگ سروسز اینڈ ویئر ہا?س کو اپنا کلیئرنگ ایجنٹ بنایا گیا لیکن دستاویزات پورٹ قاسم کسٹمز میں شمس ٹریڈنگ کی آئی ڈی سے داخل کی گئیں۔مذکورہ معاملے پر کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم کی جانب سے وزارت خارجہ اور سفارت خانے کے عہدیداروں کے ساتھ مشترکہ معائنہ کرکے کنٹینر کو کھول کر تلاشی لینے کے وقت اور دن کا تعین کیا گیا۔جب اس پر عملی کارروائی کی گئی تو کنٹینر سے غیر ملکی مختلف برانڈ کی شراب کی ہزاروں بوتلیں بر آمد ہوئیں۔جن کی مالیت کا اندازہ ابتدائی طور پر 8کروڑ روپے لگایا گیا۔بعد ازاں شمس ٹریڈنگ کمپنی کے مالک وسیم احمد عباسی کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کی گئی اور ساتھ ہی اس کمپنی کی آئی ڈی استعمال کرکے کنٹینر کلیئر کروانے والے ایجنٹ خالد حفیظ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ کے افسران کو اطلاع ملی کہ سفارتخانے کے نام پر درآمدکئے جانے والے 4کنٹینرز کی کنسائمنٹ میں الیکٹروانکس اشیائاسمگل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس پر کلکٹریٹ کے حکام کی جانب سے پی آئی سی ٹی پر درآمدہونے والے سعودی سفارتخانے کے کنسائمنٹ کو روک کراس کے دستاویزات کے جانچ پڑتال کی گئی۔اس سلسلے میں سعودی سفارتخانے کو مکتوب بھی ارسال کیاگیاجس میں سعودی سفارتخانے سے درخواست کی گئی کہ درآمدہونے والے کنسائمنٹ کے چارکنٹینرزکی تصدیق کی جائے۔ جس پر سفارتخانے کے تین کنٹینرزکی درآمدسے لاتعلقی کا اظہارکیا۔کسٹمز ٹیم کی جانب سے درآمدہونے والے کنٹینرمیں کلیئرنگ ایجنٹ کی جانب سے دستاویزات میں ظاہر کردہ درآمدفرنیچرکرنے کی تصدیق کے لئے جانچ پڑتال شروع کی گئی تو انکشا ف ہوا کہ سامان میں کروڑوں روپے مالیت کے لیپ ٹاپ ،کیمرے،ایل ای پینل اور کھانے پینے کی اشیائ موجود تھیں۔یہ اشیائ دستاویزات میں ظاہر نہیں کی گئی تھیں اور سعودی سفارت خانے کی مشکوک دستاویزات پر اسمگل کرکے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کی جا رہی تھی۔ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ملوث ملزمان میں شامل کلیئرنگ ایجنٹ میسرزایس کے ٹریڈرکے مالک خالد حفیظ نے سعودی سفارتخانے کے دستاویزات میں ردوبدل کرکے ایک کنٹینرکی بجائے چارکنٹینرزکی درآمدظاہرکی اورکنٹینرمیں فرنیچرکے بجائے الیکٹرونک سامان کی اسمگلنگ کی کوشش کی۔
اس دوسری واردات سے 3روز قبل ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ کے ٹرمینل پر قطر کے سفارت خانے کے نام پر ایک کنٹینر کلیئر کروانے کی کوشش کی گئی۔اس کنٹینر کی مشکوک کلیئرنس کی اطلاع ملنے پر اینٹی نارکوٹیکس فورس ( اے این ایف ) کی ٹیم نے اس کی کلیئر نس بلاک کردی اور چھان بین کے لئے اس کو علیحدہ کرکے لے گئے۔جہاں جانچ پڑتال میں اس کنٹینر سے کروڑ وں روپے مالیت کی 8ہزار سے زائد شراب کی بوتلیں ضبط کی گئیں اور اے این ایف نے ملوث ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کیس عدالت میں بھیج دیا۔
اسکینڈل کی مزید تفتیش میں انکشاف ہوا کہ خالد حفیظ نامی ایجنٹ نے شمس ٹریڈنگ کمپنی کے مالک کو کمیشن کا لالچ دے کر مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔یہ ایجنٹ ایک پرانے کام کرنے والے ایجنٹ حفیظ ماما کا بیٹا ہے۔جو کہ اب غیر فعال ہے تاہم خالد حفیظ سے اس پورے نیٹ ورک کی تفصیلات لی جا رہی ہے۔جس کے بعد اب کسٹمز افسران تحقیقات کے لئے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے وزارت داخلہ اور غیر ملکی سفارت خانوں کو بھی مراسلے لکھے گئے ہیں اور ان میں وزارت داخلہ کی جانب سے سفارت خانوں کے در آمدی سامان کی این او سی دینے والے سرکاری افسران اور ان سفارت خانوں میں در آمدی سامان کے لئے سفارت خانوں کی آئی ڈی سے وزارت داخلہ اور کسٹمز سے رابطے میں رہنے والے ملازمین کا ڈیٹا بھی لیا جا رہا ہے تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے۔