نیشنل بینک کے پنشن فنڈز میں بڑے پیمانے پر فراڈ کا انکشاف ہوا ہے ۔قومی بینک پیشن کے شعبہ میں 10برس تک مسلسل انچارج کی حیثیت سے تعینات رہنے والی خاتون افسر سمیت 22افسران کو شامل تفتیش کرلیا۔خاتون افسر کے زیر استعمال اہم سرکاری ڈیٹا سے بھرا لیپ ٹاپ بھی منظر عام سے غائب کردیا گیا۔
ایف آئی اے نے شعبہ پینشن کی انچارج کے ساتھ ہی ایکیومیلیٹیو فنڈز اور پینشن پر لون کی منظوریاں دینے والے شعبہ ایچ آر ،شعبہ فنانس اور کمپنسیشن اینڈ بینیفٹ ڈپارٹمنٹس کے افسرا ن تک تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ۔تحقیقات میں شامل خواتین افسران سمیت22افسران کو 5جولائی سے 17جولائی تک رکارڈ کے ساتھ ایف آئی اے میں بیانات قلمبند کرنے کے لئے بلایا گیاہے ۔
ایف آئی اے میں درج ہونے والی انکوائری میں بینک حکام ریکارڈ فراہم کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں جب بعض پینشنزر کے نام پر جاری ہونے والے جعلی پے آرڈر ز اور لون کی وارداتیں پکڑی گئیں ۔جس پر تحقیقات میں خاتون افسر کے 10سالہ میں ایکیومیلیٹیو فنڈز اور پینشن پر لون کی منظوریوں کے سات ہی ماہانہ پینشن میں کروڑوں روپے کے فراڈز پر بھی تفتیش شروع کردی گئی ہے تاکہ گھوسٹ ملازمین کے ناموں پر طویل عرصہ سے نکلنے والی پینشن کی رقم اور ان کے بینفشریز کا سراغ لگایا جاسکے ۔تحقیقات میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ خاتون افسر کی جانب سے اپنے بعض اعلیٰ افسران کو بھی ٹرانزیکشنز کی گئیں ۔۔
موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں قومی بینک کے شعبہ پینشن میں فراڈ کے معاملات سامنے آنے کے بعد انکوائری نمبر 81/2023درج کرکے تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ایف آئی اے میں جن افسران 22افسران کو آئندہ ماہ 5تاریخ سے 17تاریخ تک متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ تفتیش کے لئے طلب کیا گیا ہے ان میں ونگ ہیڈ رفعت نورین ،منیجر محمد اصغر ،اسسٹنٹ منیجر افروز تبسم،اسسٹنٹ منیجر ارشد اقبال خان ۔منیجر انویسمنٹ کنول منور،اسسٹنٹ منیجر فیصل صمد،ایچ آر آفیسر ارشد عزیز ،سیکشن ہیڈ پی ایف فیصل قدید شاہ ،ڈپارٹمنٹ ہیڈ راشد علی خان ،ایچ آر آفیسر مزمل شاہ ،نعمان قاضی فنانس ڈپارٹمنٹ ،مسعود رضا فنانس ڈپارٹمنٹ، سید محمد فرخ شاہد فنانس ڈپارٹمنٹ،ایوب خان فنانس ڈپارٹمنٹ،شاہ محمد احسان فنانس ڈپارٹمنٹ،بینا کنول فنانس ڈپارٹمنٹ،مصطفی خرم فنانس ڈپارٹمنٹ،اظہر اسلام فنانس ڈپارٹمنٹ،سلمان طلعت ونگ ہیڈ ای بی ڈبلیو،خورشید خان ڈویژنل ہیڈ ایچ آر ایس ڈی ،عباس علی حاتم ڈویژنل ہیڈ ،سید عمران گیلانی ونگ ہیڈ ای بی ڈبلیو ،رضی الدین ڈویژنل ہیڈ ایس اینڈ بی ڈی شامل ہیں ۔
اس سے قبل بینک میں محکمہ جاتی سطح پر ہونے والی انکوائری میں انچارج سیدہ رفعت نورین کے کمرے سے اہم ریکارڈ اور لیپ ٹاپ خود بینک حکام نے قبضے میں لے لیا تھا ۔تحقیقات ایف آئی اے کے تفتیشی افسر رانا ثناءاللہ کو سپرد کی گئی ہیں جنہوں نے نیشنل بینک کے شعبہ ایچ آر کے سربراہ اور اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے اداروں کے درمیا ن تعاون کے لئے تعینات کردہ فوکل پرسن کے توسط سے اہم ریکارڈ طلب کرلیا ۔تاہم متعلقہ افسران مکمل ریکارڈ فراہم کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں قومی بینک کے شعبہ کمپنسیشن اینڈ بینیفٹ ایچ آر کے سربراہ سینئر وائس پریزیڈنٹ رضی الدین کی جانب سے ایف آئی اے حکام کو بینک میں ملازمین کی پیشن میں ہونے والے فراڈ پر تحقیقات کے لئے تحریری درخواست دی گئی جس پر کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں باقاعدہ انکوائری درج کرلی گئی ۔دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں قومی بینک کے حکام کو اب تک 2تفصیلی مراسلے 23جون کو جاری کئے جاچکے ہیں ۔
ایک مراسلے میں قومی بینک کے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا کہ اس معاملے میں تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اداروں کے درمیان تعاون کے لئے فوکل پر تعینات کیا گیا ۔جس کے توسط سے ملازمین کو پینشن کے اجراءکے قواعد ،بینک کے شعبہ پینشن کے افسران کے موبائل نمبرز،شناختی کارڈ ڈیٹا اور گھروں کے پتے طلب کئے گئے ۔اس کے ساتھ ہی اسکینڈل کی مرکزی کردار اور بینک کے شعبہ پینشن کی افسر سیدہ رفعت نورین کے مکمل کوائف اور ان کی تعیناتی اور تبادلے کی تفصیلات کے ساتھ ہی 2010کے بعد بینک میں تعیناتیوں اور تبادلوں کے قواعد و ضوابط بھی مانگے گئے ۔
اس کے علاوہ سیدہ رفعت نورین کے دور میں پینشن کی رقم مختص اور جاری کرنے والے افسران کے کوائف ،پے آر ڈر جاری اور منظور کرنے والوں اورمین برانچ میں پینشنرز کے نام پے آر ڈر جمع کروانے والوں کا ڈیٹا طلب کیا گیا ۔جبکہ سیدہ رفعت نورین کے دور میں پینشن کی فائلوں کو تحویل میں رکھنے والے افسران ،لون اور لاکرز کی سہولت کے لئے فارمز بھروانے والے افسران کے کوائف بھی مانگے گئے ۔اس مراسلے میں خاتون افسر کے کمرے سے قبضے میں لئے گئے ریکارڈ کو بھی طلب کیا گیا ۔تاہم دوسرے مراسلے میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کی جانب سے لکھا گیا کہ بینک کے متعلقہ حکام نے انکوائری سے جان چھڑانے کے لئے ادھورا ریکارڈ رائیڈر کے ذریعے ایف آئی اے بھجوا دیا جوکہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔
جبکہ انکوائری میں اس فراڈ میں سنگین غیر قانونی حقائق سامنے آرہے ہیں۔مراسلے میں بینک حکام کو بتایا گیا کہ مذکورہ ڈیٹا اور پے آرڈرز کا اصل مصدقہ ریکارڈ فوکل پرسن کے ذریعے ایف آئی اے کو دیا جائے ۔جبکہ سید رفعت نورین جو کہ حیرت انگیز طور پر 10برس تک شعبہ پینشن میں مسلسل تعینات رہیں اس کے حوالے سے بھی متعلقہ ریکارڈ دیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی خاتو ن افسر کے کمرے سے اہم ڈیٹا سے بھرا لیپ ٹاپ ایف آئی اے کو دیا جائے جس کے ریکارڈ میں ردوبدل کا اندیشہ موجو د ہے اور اس سے تفتیش متاثر ہوسکتی ہے ۔