رپورٹ: عمران خان 

کراچی:وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر جعلی ادویات مافیا کے خلاف 2ماہ سے جاری ایف آئی اے کے کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں جو اطلاعات سامنے آئیں ہیں ان کے مطابق ملک بھر میں جعلی ،اسمگل شدہ اور زائد المعیاد ادویات کے اربوں روپے کے دھندے میں ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھاری رشوت کے عوض سہولت کاری فراہم کر رہی ہیں ۔جس کے نتیجے میں جعلی ادویات مافیا کے خلاف کارروائیاں ریٹیلرز اور میڈیکل اسٹوروں تک محدود ہو کر رہ گیا ۔جعلی،غیر رجسٹرڈ ،اسمگل شدہ اور زائد المعیاد ادویات کی تیاری ،سپلائی میں ملوث بڑی مچھلیاں ا ن کارروائیوں سے اب تک آزاد ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ 11مارچ کو محسن نقوی نے وزیر داخلہ بنتے ہی ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں پہلی میٹنگ میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سمیت دیگر اعلیٰ افسران کو جعلی ادویات مافیا کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر کریک ڈاﺅن کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ۔جس کے بعد سے لے کر آج تک ایف آئی اے پنجاب ،سندھ ،بلوچستان خیبر پخونخواہ اور اسلام آباد میں ایف آئی اے کی ٹیموں نے 100سے زائد چھاپے مارے ہیں اوراس کے نتیجے میں 100سے زائد انکوائریاں اور کیس رجسٹرڈ کئے ہیں ۔ان کارروائیوں کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ 90فیصد کارروائیاں ایف آئی اے کی جانب سے مختلف شہروں کے میڈیکل اسٹوروں اور ریٹل میں ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کی گئی ہیں ۔ان چھاپوں میں میڈیکل اسٹوروں سے کروڑوں روپے مالیت کی اسمگل شدہ ،زائد المعیاد اور جعلی ادویات ضبط کی گئیں جبکہ درجنوں ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔جبکہ 10فیصد کارروائیوں میں ایف آئی اے کی ٹیمیں ایسے سپلائرز ،ڈیلرز اور فیکٹریوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں جہاں سے جعلی اور زائد المعیاد ادویات مختلف میڈیکل اسٹوروں اور اسپتالوں کو سپلائی کی جا تی رہی ہیں ۔
ذرائع کے بقول ملک بھر میں جعلی ادویات مافیا کی نشاندہی کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کروانا وفاقی وزارت صحت کے ماتحت آٹو نامس ادارے یعنی ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کی ہے ۔کیونکہ ملک بھر میں ادویات کی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنا اور میڈیکل اسٹوروں کے اجازت نامے انہیں اداروں کے ذمے ہیں اور یہی ریگو لیٹری باڈیز بھی ہیں ۔تاہم دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ڈریپ یا صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹس کی جانب سے کسی بھی جعلی ،غیر معیاری ،زائد المعیاد ،اسمگل شدہ ادویات کے مینو فیکچرر،سپلائر یا ڈیلر کے خلاف ایف آئی اے کو پیشگی اطلاعات نہیں دی جا رہی ہیں ۔بلکہ ایف آئی اے کی ٹیمیں اپنی طور پر کفیہ اطلاعات پر چھاپے مار رہی ہیں ۔
اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے جعلی ادویات مافیا کے خلاف کارروائیاں ڈرگ ایکٹ ،کسٹمز ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے ساتھ اب اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات بھی شامل کر کے کی جا رہی ہیں ۔اگر ادویات غیر رجسٹرڈ اور جعلی یا زائد المعیاد ہوتی ہیں تو ا ن کے چالان ڈرگ کورٹ میں پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح سے اگر ادویات اسمگل شدہ ہوتی ہیں تو کسٹمز ایکٹ کے تحت ان کے کیس کسٹمز کورٹ میں چلائے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کیسوں میں ایف آئی اے کو ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی یعنی ڈریپ یا صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو ساتھ رکھنا پڑتا ہے کیونکہ قوانین کے تحت جب تک ان اداروں سے ایف آئی اے کو تحریری کمپلین نہیں دی جاتی اس وقت تک ڈرگ ایکٹ میں کیس عدالتوں میں چلائے ہی نہیں جاسکتے ۔اس صورتحال میں ایف آئی اے جب اپنی خفیہ معلومات پر بھی چھاپے مارتی ہے تو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لئے انہیں ڈریپ یا صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ سے تحریری کلپین لینی ہوتی ہے ۔جس کے بعد ضبط شدہ ادویات کا سیزر میمو وغیرہ سمیت نمونے لے کر ان کو لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کے لئے بھجوانے کی کارروائی ڈریپ یا صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے توسط سے کروائی جاتی ہے ۔
صرف حالیہ ایک ماہ میں کراچی میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل ،ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم شرکل اور ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کی جانب سے کراچی کے علاقوں اولڈ سٹی ایریا نزد سندھ مدرسہ اسلام ،ڈیفنس فیز 6اور پاکستان ہاﺅسنگ کو آپریٹور سوسائٹی نزد طارق روڈ کے مقامات پر ایسی 3کارروائیاں کی گئیں جن میں جعلی ،اسمگل شدہ ،اور زائدالمعیاد ادویات کی کروڑوں روپے مالیت کی بھاری کھیپیں بر آمد ہوئیں ۔ان مقامات پر قائم بنگلوں سے بر آمد ہونے والی آنکھوں کی سرجری ،لینس ،آئی ڈراپ ،جنسی ادویات اور آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والی بے ہوشی کی ادویات ملک کے درجنوں شہروں کے بڑے اور مہنگے اسپتالوں میں کئی برسوں سے سپلائی کی جاتی رہی ہیں تاہم اس دوران ڈریپ اور صوبائی محکمہ ڈرگ کے متعلقہ افسران خواب کرگوش کے مزے لیتے رہے ۔
ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے چھاپے میں ایم اے جناح روڈ سندھ مدرسہ السلام کے قریب قائم گودام سے ملنے والی کروڑوں روپے کی جنسی ادویات فروخت کرنے والے گروپ کے حوالے سے ایف آئی اے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ یہ ملزمان گزشتہ 10برسوں سے مرکزی میڈیسن مارکیٹ ،کے سینکڑوں کیبنوں اور ٹھیلوں پر جنسی ادویات فروخت کے لئے سپلائی کرتے رہے جس سے انہوں نے اربوں روپے کی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کی جبکہ شہریوں کو ہائی بلڈ پریشر سمیت امراض قلب،امراض جگر اور دیگر سنگین امراض میں بھی مبتلا کیا ۔جبکہ ڈریپ اور سندھ ڈرگ ڈپارٹمنٹ میں سرگرم کالی بھیڑیں بھاری رشوت کے عوض اس منظم دھندے کی سرپرستی کر تی رہیں ۔