عمران خان
کراچی: کسٹمز،پاکستان رینجرز اور ایف سی کے ساتھ ہی حساس اداروں نے بھی افغانستان اور ایران بارڈر علاقوں میں سرگرم اسمگلروں کے گروپوں کے حوالے سے کام شروع کردیا۔ بڑے کریک ڈاﺅن کے لئے ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایرانی ڈیزل پٹرول کے ساتھ چینی ،کھاد اور گندم کی اسمگلنگ میں ملوث گروپوں کو سر فہرست رکھا گیا ہے ۔اعلیٰ سطح سے منظوری کے بعد حساس اداروں نے سرگرم گروپوں کے سرغنوں اور ان کے کارندوں کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کردی ہیں جن کے خلاف کسٹمز کے مختلف فیلڈز فارمیشنز کی جانب سے گزشتہ 10برسوں میں اربوں روپے کا سامان ضبط کرکے مقدمات درج کئے گئے ۔ان ملزمان کے خلاف درج مقدمات اور اور عدالتی کارروائیوں کا ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے ۔جبکہ چمن ،نوشکی اور دالبدین کے دشوار گزار راستوں پر سرگرم عناصر کے ساتھ ہی بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کے سکھر اور ملتان ریجن میں قائم اسمگلروں کے ایرانی تیل، مقامی چینی اور کھاد کے بڑے گوداموں پر بڑے کریک ڈاو¿ن کی تیاریاںشروع کردی گئی ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں حساس اداروں کی جانب سے اسمگلنگ مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے لئے مختلف رپورٹس جمع کی گئیں جن میں کسٹمز،پاکستان رینجرز ،ایف آئی اے اور ایف بی آر کے ساتھ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا جن میں پاکستان سے خصوصی طور پر چینی ،کھاد اور گندم آٹا افغانستان اور ایران اسمگلر کرنے والوں کا ریکارڈ لیا گیا جبکہ اس کے ساتھ ہی ایرانی سے اسمگل ہو کر آنے والے پٹرول اور ڈیزل کے اسمگلروں کے کوائف بھی متعلقہ اداروں سے جمع کئے گئے ۔جس میں انکشاف ہوا ہے کہ اس پورے اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے 4مختلف حصے پاکستان ،افغانستان ،ایران اور دبئی میں تقسیم ہیں ہیں تاہم ان کا گٹھ جوڑ متحدہ عرب امارات خصوصی طور پر دبئی اور پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں موجود ہے۔جس میںپاکستان میں سیاسی ،سماجی اور سرکاری اثر رسوخ رکھنے والی 6درجن بااثر سیاسی شخصیات کی چینی ،کھاد اور آٹا ملوں اور گوداموں سے مال خرید کرکے جمع کرنے کے بعد اس سامان کی ٹرانسپورٹیشن میں ملوث نیٹ ورک ،سامان کی ادائیگیاں کرنے والا نیٹ ورک اور اسمگل شدہ سامان کو ملک میں مقامی مارکیٹ میں سپلائی کرنے والے گروپ شامل ہیں ۔
اس میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ملک میں چینی ،کھاد اور آٹا جب مقامی مارکیٹوں میں وافر مقدار میں پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی بڑی مقدار زیادہ منافع کی لالچ میں اسمگلروں کے حوالے کردی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں ان فیکٹری مالکان اور ملوں کی انتظامیہ کو فی کلو پر 30سے 40روپے مقامی مارکیٹ سے زیادہ مل جاتی ہے تاہم یہ رقوم دو طرح سے ملتی ہیں ۔اسمگلروں کے ذریعے افغانستان جانے والی ان اشیاءکے عوض اسمگلروں کو ادائیگیاں دبئی سے ڈالروں اور اماتی درہم میں کردی جاتی ہیں جنہیں ملوں کے مالکان اور انتطامیہ کے علاوہ ان کے ساتھ ملوث اسمگلر متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں ہی بیرونی خفیہ سرمایہ کاری میں لگا دیتے ہیں ۔جبکہ ایران کو اسمگل ہونے والی ان ااشیاءکے عوض اسمگر مافیا ایرانی خوردنی تیل، ڈیزل اور پٹرول منگوالیتی ہے ۔گزشتہ عرصہ میں ایک کلو چینی کے عوض 3لیٹر ایرانی ڈیزل اور پٹرول واپس اسمگل کیا گیا ۔جس کو ٹرانسپورٹیشن ،بارڈر اور چوکیوں کے اخراجات نکالنے کے بعد سندھ ،پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں مقامی سطح پر طے شدہ تیل مصنوعات کے نرخوں یعنی 290روپے لیٹر پر فروخت کرکے 3گناہ زائد ناجائز منافع بٹو را گیا ۔
گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں چینی اور آتا بالترتیب 80روپے فی کلو اور 120روپے فی کلو تھے ۔تاہم مل مالکان اور انتظامیہ ،ڈیلروں کی جانب سے ان نرخوں پر پاکستان میں چینی اور آٹا فروخت کر سکتے تھے۔تاہم انہوں نے اس کو اسمگلروں کے حوالے سے کرکے 200روپے کلو کے حساب سے منافع کمایا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں تیزی سے اوپر آئین اور اب ان چینی اور آٹے کی قیمتیں فی کلو 200روپے تک پہنچ چکی ہیں ۔
معلومات کے مطابق بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ ،چمن اور خصوصی طور پر نوشکی بیلٹ جوکہ ان دنوں اسمگلنگ کے حوالے سے سرگرم ترین علاقہ ہے یہاں سے اسمگلنگ کا سامان بالائی سندھ اور زیریں سندھ کے علاقوں کراچی کے ذمپنگ پوائنٹس تک پہنچانے کے لئے اسمگلروں کا سب سے بڑ انیٹ ورک شیر آغا ،حاجی صادق ،حاجی بسمہ اللہ ،حاجی بالی ،حاجی عبدالرحمن ،حاجی نواز ،نبی بخش ،طوفان خان ،احمد شاہ اور سیلاب خان کے کارندے چلا رہے ہیں جس کے تحت منگھو پیر دور جی کے علاقے سمیت حب سے کراچی آنے والی آرسی ڈی شارع کے درمیان اور اطراف کئی درجن کچے راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔مذکورہ نیٹ ورک کے ذریعے کراچی میں سپلائی ہونے والے خوردنی ایرانی تیل ،ڈیزل اور پٹرول کی 90فیصد مقدار کیماڑی ٹاﺅن کی سڑکوں ،سائٹ ،بلدیہ ٹاﺅن سے لیاری ،مواچھ گوٹھ ،بن قاسم ،گڈاپ ٹاﺅن ،لانڈھی ٹاﺅن اور ملیر ٹاﺅن کے علاقوں میں موجود گوداموں میں پہنچتی ہے جہاں سے اس کو ہزاروں دکانوں اور پمپوں تک سپلائی کیا جاتا ہے ۔
، خیبر پختونخواہ کے علاقے میں کوہاٹ کے بارڈر غلام خان کے راستوں سے افغانستان سے آنے والی اسمگل شدہ اشیاءکو ملک کے زیریں علاقوں میں سپلائی کرنے کے لئے اسمگلروں کا نیٹ ورک نور خان ،اکبر خان اور حضرت خان کے درجنوں کارندے چلا رہے ہیں۔ اسی طرح سے خیبرپختونخواہ سے پنجاب کے علاقوں میں اسمگل شدہ سامان کی ترسیل کا نیٹ ورک جاوید آفریدی ،ساجد خان ،طورا خان ،بابری خان ،حاجی مومن اور حاجی گل زمان خان کے کارندے کے پاس ہے ،افغانستان سے آنے والے سامان کو انگور اڈہ سے آگے پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقوں میں سپلائی کرنے کا نیٹ ورک قاری حمزہ ،حبیب اللہ ،منان شیرانی اور دریان خان کے کارندے چلا رہے ہیں جبکہ اسی طرح سے گلگت بلتستان سے ہزارہ ڈویژن کے علاقوں ایبٹ آباد ،مانسہرہ اور ہری پور سے پنجاب کے علاقوں میں سامان سپلائی کرنے کا نیٹ ورک حاجی رفیق ٹیکسلے والا ،جاوید گلگتی ،حاجی اعتبار ،پاپا شکیل اور صدیق کے کارندوں کے پاس ہے ۔
معلوم ہوا ہے کہ چینی ،آٹا گندم اور کھاد کے عوض آنے والے ایرانی ڈیزل اور پٹرول میں ملک کے سب سے بڑے ڈمپنگ پوائنٹس ملتان ریجن اور سکھر ریجن میں قائم کئے گئے ہیں۔چونکہ ان دونوں علاقوں سے بلوچستان سے آنے والے سامان کو بیک وقت سندھ اور پنجاب بھر میں سپلائی کرنے لے لئے کئی راستے موجود ہیں اور یہ مرکزی مقامات ہیں ۔یبڑے اسمگلروں کے یہ گودام دودراز کے علاقوں میں فارم ہاﺅسز اور باﺅنڈری والز میں قائم ہیں۔یہاں چوبیس گھنٹے مسلح افراد درجنوں کی تعداد میں پہرے داری کرتے ہیں ۔
یہاں زیر زمین ٹینکوں میں بیک وقت لاکھوں لیٹر تیل ڈمپ کردیا جاتا ہے ۔جس کی سپلائی ملک بھر میں چھوٹی اور بڑی گاڑیوں کے ذریعے مسلسل جاری رہتی ہے ۔اس مافیا کے ملک کے بڑے فیکٹری اور مل مالکان اور ان کے منیجروں اور انتظامیہ کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ۔اطلاعات کے مطابق ان گوداموں پر کارروائیوں کے لئے خصوصی حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری نفری کسٹمز اور ایف بی آر کی ٹیموں کے ساتھ ہو ۔اور کارروائیوں کے فوری بعد مضبوط مقدمات شواہد کے ساتھ قائم کئے جاسکیں ۔جبکہ اسمگلروں سے ملوث صنعتکاروں کے حوالے سے ثبوت جمع کرنے کے لئے مشترکہ تحقیقاتی حکمت عملی بنا لی گئی ہے۔