عمران خان
کراچی:نیب کراچی کی جانب سے سندھ کے سابق وزیر خوراک و ایکسائز مکیش کمار چاﺅلہ کے حوالے سے آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ان سمیت 6خاندانوں کے 35افراد کو شامل تفتیش کرلیا۔
جن کے ناموں پر موجود کمپنیوں اور اثاثوں کا ریکارڈ چھان بین کے لئے طلب کیا گیا ہے تاکہ ان تمام افراد کے ذرائع آمدنی اور ان کے اثاثوں کو میچ کرکے انکوائری کومنی لانڈرنگ قوانین کے تحت آگے بڑھایا جاسکے ۔
اہم ذرائع کے مطابق نیب کراچی کی جانب سے ایک جانب ان کے لئے فرنٹ مین کی حیثیت سے صوبائی محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ موٹر رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر وحید شیخ اور ایک پرائیویٹ شخص حسن علی شریف کو شامل تفتیش کیا گیا ہے ۔
جس کے لئے ایک مراسلے کے تحت ریکارڈ طلب کیا گیا ۔تاہم دوسری جانب سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے لگ بھگ 35افراد کے شناختی کارڈز پر گزشتہ ایک دہائی میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں ،بینک اکاﺅنٹس اور ان میں لگائے گئے سرمایہ ،ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تفصیلات طلب کرلی گئیں ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق جن 6خاندان کے 35افراد کے شناختی کارڈز پر قائم کمپنیوں اور بینک اکاﺅنٹس کا ڈیٹا طلب کیا گیا ہے ان میں خود مکیش کمار چاﺅلہ کے خاندان کے 12افراد ،ڈپٹی ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن موٹر رجسٹریشن ونگ وحید شیخ کے اہل خانہ کے 8افراد ،مکیش کمار چاﺅلہ کے فرنٹ مین تصور کئے جانے والے حسن علی شریف کے اہل خانہ کے 4افراد ،عامر اشرف اندرے کے اہل خانہ کے 3افراد اور عامر گل قریشی کے اہل خانہ کے 4افراد شامل ہیں ۔ان میں تمام ہی افراد کا تعلق ان 6افراد سے بھائی ،بہن ،والد ،اولاد اور اہلیہ کا ہے ۔
ذرائع کے بقول تحقیقات میں اس پہلو کو ایسی اطلاعات پر شامل کیا گیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 2008کے بعدگزشتہ مسلسل 3حکومتوں کے دوران مکیش کمار چاﺅلہ متعدد بار محکمہ خوراک اور ایکسائز کی اہم وزارتوں کے قلمدان سمبھالتے رہے ہیں اس طویل عرصہ میں ان پر2015اور 2016اور 2021میں اربوں روپے کی کرپشن کے متعدد الزامات سامنے آئے جس پر نیب اور صوبائی اینٹی کرپشن میں کئی انکوائریاں بھی کھلیں اور بند ہوئیں ۔
تاہم مکیش کمار چاﺅلہ بدستور بلاول ہاﺅس سے انتہائی قریب اور سندھ کے صوبائی نظام میں مالیاتی اعتبار سے مضبوط اور بااعتبار سمجھے جاتے رہے ۔
تازہ تحقیقات میں اس پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ فرنٹ مینوں کے ذریعے اربوں روپے کئی خاندانوں کے افراد کے ناموں پر بنائی گئی کمپنیوں اور اثاثوں میں بے نامی سرمایہ کاری کی حیثیت سے کھپائے گئے ہیں جو کہ کرپشن کی رقم کو منی لانڈرنگ کرنے کے ذمرے میں آتا ہے۔