رپورٹ : عمران خان

کراچی: گزشتہ 2برسوں کے دوران حکومت نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہریوں سے پاسپورٹ کی فیسوں کی مد میں 100ارب سے زائد کی ایڈوانس وصولیاں کیں ہیں تاہم اس کے باجود یہ شہری لمبے عرصہ سے اپنے پاسپورٹوں کے حصول کے لئے خوار ہو رہے ہیں ۔

 اس دوران حکومتی غیر سنجیدگی کا یہ عالم رہا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن اس عرصہ کے دوران تمام صورتحال واضح طور پر علم میں ہونے کے باجود پرنٹنگ میٹریل کی بروقت درآمد اور چھپائی کی استعداد بڑھانے میں ناکام رہے ۔حتیٰ کہ شہریوں کو خدمات فراہم کرنے والے اس اہم ادارے کو سروس فراہمی سے زیادہ ریونیو جنریٹنگ( یعنی شہریوں سے پیسے نچوڑنے والا) ادارہ بنادیا گیا۔

 ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ صورتحال 2022کے وسط تک معمول پر تھی ۔اس وقت نارمل یعنی معمول کے پاسپورٹ تین ورکنگ ہفتوں میں آجایا کرتے تھے اور ارجنٹ یعنی ہنگامی فیس جمع کروانے والوں کو پاسپورٹ ایک ہفتہ کے اندر مل جایا کرتے تھے ۔تاہم پی ڈی ایم کی حکومت میں 2022کی آخری سہ ماہی کے دوران ملک میں زر مبادلہ کی کمی کی وجہ سے جب در آمدات کی کلیئرنس پر پابندیاں عائد ہونی شروع ہوئیں ۔

اس وقت ایک پالیسی کے تحت انتہائی ضروری استعمال کی اشیاءکی کلیئرنس اور ادائیگیوں کے لئے ہی اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت بینکوں نے لیٹر آف کریڈٹ یعنی ایل سیز کی اجازت دی ۔اس دوران بندرگاہوں پر بیرون ملک سے آنے والے مختلف سامان کے ہزاروں کنٹینرز ادائیگیاں منظور نہ ہونے کی وجہ سے رکنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اسی وجہ سے کئی سرکاری اداروں کے لئے ضروری سامان جو کہ بیرون ملک سے منگوایا جاتا تھا وہ بھی ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے رکنے لگا ۔یہی سلسلہ سابق عبوی حکومت میں جاری رہااورموجودہ حکومت کے دور میں بھی چل رہا ہے۔

اس عرصہ میں ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی جانب سے پاسپورٹوں کی پرنٹنگ کے لئے فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے منگوایا جانے والے پرنٹنگ میٹریل کی کھیپیں بھی رکنے شروع ہوگئی تھیں ۔دوسری جانب ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کی وجہ سے شہریوں میں زیادہ سے زیادہ بیرون ملک جانے کا رجحان بھی پہلے سے بڑھ گیا تھا ۔

ان دونوں وجوہات نے مل کر ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے ہیڈ کوارٹر میں پاسپورٹ بنوانے کے خواہشمندوں کی درخواستوں کے انبار لگانے شروع کردئے ۔جو کہ پہلے لاکھوں میں جمع ہوئیں اور پھر زیر التواءدرخواستو ں کا عدد کروڑ سے بھی تجاوز کرگیا ۔2023کا پورا سال اور 2024میں اب تک پاسپورٹوں کے لئے درخواست اور ڈیٹا جمع کروانے والے شہریوں کو پاسپورٹوں کے حصول کے لئے 6،6مہینے کا انتظار کرنا پڑا۔جبکہ صورتحال اس وقت بھی وہی ہے کہ لاکھوں شہری مہینوں سے اپنے پاسپورٹوں کے انتظار میں ہیں۔اس میں بیرون ملک ملازمتوں پر کے خواہشمندو ں کے علاوہ طلباءکی بھی بڑی تعداد شامل ہے جوکہ مستقبل میںاس مشکل معاشی وقت میں پاکستان کے لئے زر مبادلہ میں اضافے کا یعنی باعث بن سکتے ہیں ۔

اس ضمن میں ایک ہفتہ قبل ہی موجودہ صورتحال میں شہریوں کو پیش مشکلات کے حل کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے لئے گئے نوٹس کی کارروائی کے دوران ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اس وقت زیر التواءشہریوں کی پاسپورٹوں کی درخواستوں کی تعداد 16ملین یعنی 1کروڑ 60لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔اسی رپورٹ میں انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف گزشتہ مئی کے مہینے میں ملک بھر سے 8لاکھ شہریوں نے پاسپورٹ کے لئے پاسپورٹ دفاتر کا رخ کیا ۔

محکمانہ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی جانب سے پیش کئے گئے یہ اعداد وشمار بظاہر زیادہ لگ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ رپورٹ میں ٹائپنگ کی غلطی سے ہوگیا ہو تاہم اب یہ اعداد وشمار مصدقہ سرکاری رپورٹ کا حصہ ہیں ۔اور اس رپورٹ کی ایک ہفتہ گزرجانے کے باجود ترید یا اصلاح بھی نہیں کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار درست ہوسکتے ہیں ۔تاہم اس وقت پاسپورٹوں کے اجراءمیں تاخیر پر محکمہ کے افسران کسی قسم کا موقف دینے اور حتیٰ کہ آف داریکارڈ بات کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں ۔

محکمہ کے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس وقت ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے تحت مجموعی طور پر 197دفاتر قائم ہیں۔جن میں اسلام آباد میں 4دفاتر ،پنجاب بھر میں 61دفاتر، خیبر پختونخواہ میں 26دفاتر، سندھ بھر میں 31دفاتر، بلوچستان میں 32دفاتر،آزاد جموں کشمیر میں 10دفاتر اور گلگت بلتستان میں 9دفاتر قائم ہیں ۔ان میں سے کچھ دور دراز علاقوں میں غیر فعال ہوسکتے ہیں تاہم اکثریت میں فعال ہیں ۔ملک کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے تحت 60اورسیز پاسپورٹ دفاتر کے پوائنٹس کام کر رہے ہیں ۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے اعداد وشمار کو درست مان لیا جائے کہ اس وقت ماہانہ 8سے 10لاکھ شہری ملک بھر سے اور دنیا بھر سے تجدید کے لئے ان 250سے زائد پاسپورٹ دفاتر سے رجوع کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ملک بھر سے یومیہ 26ہزار شہری پاسپورٹ کے لئے دفاتر سے رابطہ کرتے ہیں جوکہ 25کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں ایک معمول کی تعداد بنتی ہے ۔

گزشتہ برسوں میں ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی جانب سے مختلف درجہ بندی کے پاسپورٹوں کی فیس میں 2سے 3گنا اضافہ کیا گیا ہے ۔اس وقت 50صفحات کے معمول کے پاسپورٹ کی فیس 3ہزار سے زائد جبکہ ارجنٹ کے لئے 5ہزار سے زائد اسی طرح 100صفحات والے پاسپورٹوں کے لئے بالترتیب 6ہزار اور 10ہزار سے زائد کی فیسیں مقرر ہیں ۔

ذرائع کے بقول فی شہری اوسطاً6ہزار روپے کی فیس بھی لگائی جائے تو یومیہ 25ہزار درخواست گزاروں کی مد میں ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی جانب سے 15کروڑ روپے سے زائد کی فیسیں وصولی کی جا رہی ہیں ۔اگر اسی تناسب سے ماہانہ 8لاکھ شہری پاسپورٹ دفاتر کا رخ کرتے ہیں تو 6ہزار کی فیس کے حساب سے ماہانہ فیس وصولی 4ارب 80کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔جس کا واضح مطلب ہے کہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہریوں سے پاسپورٹ فیسوں کی مد میں حکومت نے 100ارب سے زائد کی رقم وصول کی ہے ۔

محکمہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شہریوں سے اتنی فیسیں وصول کرنے کے بعد بھی انہیں بہتر سہولیات فراہم نہ کرنا اور پاسپورٹ کے حصول کے لئے خوار کرکے رکھنا حکومت کی نا اہلی اور غیر ذمے داری کے ذمرے میں آتا ہے۔اس وقت ملک میں دو طرح کے سرکاری محکمے ہیں ایک وہ ہیں جن پر حکومت عوامی ٹیکس کے کروڑوں اربوں روپے خرچ کرتی ہے تاہم ان سے کوئی منافع نہیںملتا ۔دوسرے وہ ادارے ہیں جوکہ ریونیو جنریٹنگ ہوتے ہیں یعنی حکومت کو کما کردیتے ہیں ۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن بھی ایسا ہی ایک محکمہ ہے جوکہ شہریوں سے بھاری فیس وصول کرکے سرکاری خزنے میں دیتا ہے۔اس لئے اس کے لئے ضروری سامان کا رکنا سمجھ سے بالاتر ہے۔اس ضمن میں وزیر اعظم ہاﺅس، وفاقی وزارت داخلہ ،اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر حکام کو ایک موثر حکمت عملی بنا کر ڈائریکٹوریٹ جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی استعداد میں اضافہ کرنا ہوگا ۔جوکہ اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔