رپورٹ: عمران خان
کراچی: مدرسہ کی آڑ میں ادویات کا بڑاغیر قانونی کارخانہ چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔مذکورہ کارخانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اینٹی بائیوٹک اور مرگی کے علاج کی اہم ادویات تیار کرکے پاکستان اور افغانستان میں سپلائی کی جا رہی تھیں ۔
یہی ادویات ملک میں شارٹ ہونے پر مہنگے داموں بلیک مارکیٹ میں فروخت کرکے کروڑوں روپے کا ناجائز منافع بھی کمایا گیا ۔ایف آئی اے نے ملوث مدرسہ اور مسجد کے خطیب کو بھائیوں سمیت گلشن بونیرسے حراست میں لے کر ان کی نشاندہی اورنگی ٹاﺅن سے ایک اہم گرفتاری کی ۔ جس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ایک مکمل نیٹ ورک ہے جس کے ملزمان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے ۔جس میں کارخانے کے لئے جدید مشینیں دینے والے تاجروں اور ادویات کا خام مال اور پرنٹنگ میٹریل سپلائی کرنے والے ڈیلروں کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول گزشتہ ہفتے ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کو خفیہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ کراچی کے علاقے لانڈھی کی ایک بستی گلشن بونیرمیں ادویات کی غیر قانونی فیکٹری چلائی جا رہی ہے ۔اس اطلاع پر ایف آئی اے افسر بہرام خان اپنے ٹیم اور ڈریپ ( ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ) کے افسران کے ساتھ موقع پر پہنچے ۔کارروائی میں معلوم ہوا کہ کئی برس قبل مذکورہ عمارت کو مدرسہ کے نام پر قائم کیا گیا تھا تاہم اس کے مہتمم اور بھائیوں نے اپنی رہائش یہاں رکھنے کے ساتھ ہی ادویات کا غیر قانونی دھندہ شروع کردیا ۔
اس چھاپے میں مذکورہ عمارت سے ادویات بنانے کے لئے استعمال ہونے والی جدید اور ہیوی مشینیں بر آمد ہوئیں جنہیں سیل کردیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی موقع سے نووی ڈیٹ ،ایموکسلین ،ٹیگرال کے علاوہ متعدد قسم کی دیگر ادویات ملیں جن پر فارسی اور پشتو تحریریں درج تھیں۔تحقیقات کے مطابق ٹیگرال کی گولیاں مرگی کے علاج کے لئے ہوتی ہیں جوکہ عام حالات میں 300روپے میں ملتی ہیں اور جب مارکیٹ میں ان کی قلت ہوتی ہے تو ایک پیکٹ ہزاروں روپے میں فروخت ہوتا ہے ۔جبکہ ایموکسلین اور نواڈیٹ کے ساتھ یہ افغانستان اور دیگر ملحقہ ممالک میں کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کرکے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم وصول کی جاتی ہیں ۔
مذکورہ مدرسہ مہتمم کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ خود کو حکیم کے طور پر متعارف کرواتے رہے اور علاقے میں بطور حکیم مطب چلانے کے علاوہ مختلف نسخے فروخت کرتے رہے۔اتنی بڑے پیمانے پر ایلو پیتھک اینٹی بائیو ٹک ادویات بنانے کے لئے ڈریپ کا لائسنس درکار ہوتا ہے جوکہ پروفیشنل فارما سوٹیکل کمپنیوں کو پیچیدہ شرائط اور بھاری ضمانتوں پر دیا جاتا ہے۔جو کہ مشینیں اس کارخانے میں استعمال کی گئیں وہ استعمال کرنے کے لئے بھی لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ایف آئی اے نے یہاں سے لاکھوں روپے مالیت کی ادویات ضبط کرکے تفتیش شروع کی جس میں انکشاف ہوا کہ یہ مشینیں بعض بزنس مینوں کی جانب سے دی گئیں۔ملزمان کے موبائل ضبط کر کے کی جانے والی تفتیش میں بعض اشارے ملنے پر اسی ایف آئی اے ٹیم نے گزشتہ روز اورنگی ٹاﺅن کے علاقے میں چھاپہ مارکر ایک اور غیر قانونی کارخانہ پکڑا جہاں یہی ادویات نہ صرف بن رہی تھیں بلکہ ان کا پیکنگ اور پرنٹنگ میٹریل تیار ہو رہا تھا جوکہ گلشن بونیرکی تیار ہونے والی ادویات کی پیکنگ میں بھی استعمال ہو رہا تھا ۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ کارروائی میں کروڑوں مالیت کی مشتبہ ادویات، مشینری اور دیگر آلات برآمد ہوئیں جس میں بڑی تعداد مین پاوڈر اور لیکویڈ مکسنگ مشینین، پیکنگ مشینیں، پرنٹنگ مشینیں شامل ہیں۔یہاں رہائشی احاطے میں قائم ادویات سازفیکٹری میں جعلی ادویات کی تیاری اورپیکنگ ہو رہی تھی۔مذکورہ فیکٹری سے بھاری مقدار میں مشتبہ ادویات برآمد کر لی گئیں۔چھاپے کے دوران اینٹی بائیوٹک ادویات کی بڑی کھیپ پکڑی گئی جن کو پیک کیا جا رہا تھا۔چھاپے کے دوران فیکٹری کے مالک سید زیاد اور دیگر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ گرفتار ملزمان کے مطابق ادویات مختلف شہروں میں سپلائی کی جا رہی تھی۔اورنگی ٹاﺅن میں ہونے والی اس کارروائی میں ادویات کی پیکنگ کے لئے زیراستعمال آلات اور مشینری بھی برآمد کی گئی۔۔ان دونوں کارروائیوں کے بعد اب تک نصف درجن ملزمان کو حراست میں لے کر مقدمات درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیاہے ۔جبکہ ان ملزمان کے دیگر ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول دونوں کارروائیوں میں پکڑی جانے والی فیکٹریوں اور مالکان کو آپس میں گٹھ جور سامنے آیا ہے ۔جس میں مدرسہ مالکان مینو فیکچرزز اور بیرون ملک سپلائر کا کردار ادا کر تے رہے جبکہ اورنگی ٹاﺅن کے فیکٹری مالکان خام مال اور پرنٹنگ میٹریل کی سپلائی کرتے تھے ۔ان دونوں کے ساتھ مزید کن تاجروں اور ڈیلروں کی سرمایہ کاری تھی اس پر مزید تفتیش جاری ہے۔