رپورٹ : عمران خان
کراچی:ملک میں زر مبادلہ کی کمی کی وجہ سے پرتعیش سامان کی در آمد پر پابندی کے دوران اسمگلروں کے مخصوص نیٹ ورک کی جانب سے اسکریپ کی در آمد کی آڑ میں اربوں روپے کے سامان پر مشتمل 200کے قریب کنٹینرز کراچی کے ٹرمینل سے کلیئر کروائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ملوث نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں کے ساتھ متعلقہ ٹرمینل کی انتظامیہ اور اسٹاف سہولت کار بنے رہے۔ذرائع کے بقول پیشگی بچت کے لئے اس اسکینڈل میں ملوث ،ایجنٹوں ،سرمایہ کاروں اور سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ سے اس منظم منصوبہ بندی کے ساتھ یہ وارداتیں ڈالی جاتی رہیں تاکہ بعد ازاں اس کا ملبہ ڈور ٹو ڈور اور بیگیج کے سامان پر ڈالا جاسکے۔
اس طرح سے اربوں روپے مالیت کے لگڑری آئٹم ملک میں مس ڈکلریشن کے ذریعے اسمگل کرکے قومی خزانے کو ایک جانب ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جبکہ دوسری جانب ?حوالہ ہنڈی کے ذریعے کرنسی بیرون ملک منتقل کرکے ملک کو زرمبادلہ کی مد میں بھی بھاری نقصان سے دوچار کیا۔
ذرائع کے بقول گزشتہ عرصہ میں ملک میں پرتعیش سامان کی در آمد پر پابندی کے دوران اسمگلروں اور ان کے ایجنٹوں نے آئرن اسٹیل کوائل کے باسکریپ کی آڑ میں۔اطلاعات کے مطابق کافی عرص سے کوئل سکریب کی آڑ میں ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ میں کمرشل سامان کی اسکریپ کی در آمد کی آڑ میں کلیئرنس کا م ہو رہا تھا جس میں لیپ ٹپ سگریٹ موبائل اور ایسے سامان ہوتا تھا۔
اس وقت ملک میں زر مبادلہ کی کمی کے باعث در آمد شدہ سامان کے لئے ایل سیز منظور ہونے کا سلسلہ بھی بند تھا اور صرف انتہائی ضروری سامان کے وہ کنٹینرز جو بندرگاہوں پر پہنچ چکے تھے ان کی کلیئر نس کے لئے ایل سیز منظور ہو رہی تھیں۔اسی سلسلے میں حکومت کی جانب سے پرتعیش سامان کی در آمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس نیٹ ورک کے دھندوں کا پردہ اس وقت چاک ہوا جب گزشتہ دنوں ماڈل کسٹمز کسٹم انفورسمنٹ کلکٹریٹ کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن اے ایس او نے خفیہ اطلاع ملنے پر سائٹ کے علاقے میں نورس چورنگی سائیٹ ایریا میں کاروائی کی جہاں سے 40فٹ اور 20فٹ کے 2کنٹینرز ضبط کئے گئے۔مذکورہ کنٹینرز کو قبضے میں لینے کے بعد چھان بین کی گئی جس میں انکشاف ہوا کہ یہ کنٹینرز جس گڈز ڈکلریشن یعنی جی ڈی پر ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ سے کلیئر کئے گئے اس کے مطابق ان کنٹینرز میں آئرن اسٹیل کوائل اسکریپ ظاہر کیا گیا تھا تاہم ان میں کروڑوں روپے مالیت کے لیپ ٹاپ ،موبائل فونز،ٹیبلیٹ،پرفیومز ،برانڈڈ کاسمیٹکس ،ایل ای ڈیز اور دیگر قسم کے اسپیئر پارٹس موجود تھے۔اس سامان پر 30کروڑ روپے مالیت کی ڈیوٹی چوری کی جا رہی تھی۔
کارروائی میں سائٹ کے اس گودام کو سیل کرکے مزید قانونی کارروائی شروع کی گئی۔
ذرائع کے مطابق اسی دوران اپریزمنٹ ایسٹ نے آف ڈاک ٹرمینل (پی ایم ایس )الفلاح کنٹینر ٹرمینل کمپنی میں پڑے ان 4کنٹینرز کنٹینرز کی چھان بین شروع کی۔ان کنٹینرز کی کلیئرنس کے لئے جمع کروائی جانے والی گڈز ڈکلریشن میں کنٹینرز کے اندر ری میٹی بل آئرن اسکریپ ہی ظاہر کیا گیا۔
تاہم بعد ازاں جانچ پڑتال میں انکشاف ہوا کہ ان کنٹینرز میں لیپ ٹاپ، موبائل فونز، ٹیبلیٹ، پرفیومز، سگریٹ،گریس سمیت دیگرقیمتی اشیاءکی اسمگلنگ کی جارہی تھی۔واردات سامنے آنے کے بعدماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ میں ملزمان میں شامل میسرزواصی انٹرپرائزز،میسرزہمناانٹرپرائززاورسینرجی ورلڈوائیڈجنرل ٹریڈنگ کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کاآغاز کیا گیا۔
اب تک کسٹمز انفورسمنٹ اورکسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ کے ان دونوں کیسوں کی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ان کے در آمد کندگان نے دبئی سے اسکرپ کے کنسائمنٹس درآمدکئے جس میں وائرریملٹ ایبل اسکرپ اوراستعمال شدہ نائلون کی رسی ظاہرکیاگیاتھاجس کی تصدیق درآمدی مینی فسٹ سے ہوئی۔
ذرائع نے بتایا کے کسٹم انفورسسمنٹ اور کسٹم اپریزمنٹ کی انویسٹگیشن کے دوران کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اسکینڈل میں کراچی پورٹ آف ڈاک ٹرمینل( پی ایم ایس )یارڈ الفالاح کے بعض عناصر اس میں ملوث ہیں۔تحقیقات کے مطابق یہ سارے کنٹینرز آف ڈاک ٹرمینل (پی ایم ایس )االفلاح یارڈ میں شفٹ ہوتے تھے۔جس کے بعد کراس اسٹنگ یعنی کنٹینرز میں سامان تبدیلی کے عمل سے یہ وارداتیں ہو رہی تھیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے آف ڈاک ٹرمینل ( پی ایم ایس) الفلاح یارڈ کو تمام قانونی قواعد اور ضوابط مکمل کئے بغیر ہی افغان ٹرانزٹ سے آنے والے کنٹینرز کی کراس اسٹفنگ یعنی ایک کنٹینرز سے سامان دوسرے کنٹینرز میں لوڈ کرنے کی غیر قانونی منظوری دی گئی۔جس پر بھی مزید تحقیقات اور قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ اسمگلنگ کے اس کاروبار میں مبینہ طور پرایک گروپ دبئی سے مسلسل سامان بھجواتا رہا۔
کسٹم ذرائع نے بتایا اپریزمنٹ ایسٹ سے اس کلیئرنس کے معاملات شہزاد نامی ایجنٹ کے ساتھ ہی معیز باوانی اپنے ساتھی کامران کے ساتھ دیکھتا رہا جو کہ تحقیقات میں سامنے آنے والے شواہد کے مطابق الفلاح یارڈ کمپنی کاایک انچارج بھی ہے اور اسے قبل بھی کراچی سمیت مختلف شہروں میں جعلسازی سے ٹیکس چوری،اسمگلنگ کے مقدمات میں نامزد رہا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی یہ وارداتیں گزشتہ کئی ماہ سے جاری تھیں جس میں اسمگلنگ کے لگڑری سامان کی پیکنگ اورسیز پاکستانیوں کے ڈور ٹو ڈور اور بیگیج اسکیم کے تحت آنے والے گھریلو سامان کی طرح کی جاتی رہی۔تاکہ اگر سامان پکڑا بھی جائے تو شبہہ کمرشل کاکام کرنے والوں کے بجائے کسٹمز انفورسمنٹ کے تحت کلیئر ہونے والے بیگج کے سامان اورسیز کا کام کرنے والوں کی طرف جاتا رہے۔جبکہ ایسا متعدد بار ہوا کہ سامان پکڑا جانے کی صورت میں کسٹمز انفورسمنٹ کی بدنامی اور اورسیز کاکام کرنے والے افراد سے پوچھ گچھ ہوتی رہی۔
پرتعیش سامان کے 150سے 200کنٹینرز کے اس معاملے میں چونکہ ایک مخصوص گروپ کی جانب سے خراب ملکی معاشی صورتحال اور زر مبادلہ کی شدید کمی کے دوران حکومتی اقدامات پر پانی پھیرنے اور اربوں کا ناجائز منافع بٹورنے کا سنگین پہلو شامل ہے اس لئے مقتدرہ اداروں اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے حکام کی جانب سے اس پر مکمل اور جامع انکوائری پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ ملوث ایجنٹوں ،سرمایہ کاروں ،سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے۔