رپورٹ: عمران خان

کراچی: عامر مصطفی قتل کیس میں ملزم ارمغان کے حوالے سے ایف آئی اے تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ماہانہ تقریباً 11کروڑ روپے آن لائن فراڈ کے ذریعے کمارہا تھا۔اس پیسے کو کرپٹو یعنی ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل کرلیا جاتا تھا۔اس ضمن میں وہ وہ امریکہ میری لینڈ میں رجسٹرڈ کروائی گئی کمپنی استعمال کر رہا تھا۔جبکہ پاکستان میں اپنے کال سینٹرز اور دیگر روز مرزہ اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے دو ملازمین رحیم بخش اور عبدالرحیم کے نامو پر کھلوائے گئے اکاؤنٹس کے ڈیبٹ کارڈز کے ذریعے کرتا تھا۔یہ کارڈز اس نے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔

تحقیقات میں اب تک ملزم کے 15کروڑ روپے مالیت کی گاڑیوں کا سراغ لگا کر انہیں منجمد کردیا گیا ہے جوکہ فراڈ سے کمائی گئی رقوم سے خریدی گئیں۔ملزم کے خلاف مذکورہ شواہد سامنے آنے کے بعد گزشتہ روز اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کرک مزید تفتیش شروع کردی گئی ہے۔مجموعی طور پر یہ ارمغان کے خلاف اب تک 10واں مقدمہ ہے۔مقدمہ میں ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی کو بھی نامزد کرکئے شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔

 دستاویزات کے مطابق گزشتہ روز ملزم ارمغان کے خلاف ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچ میں مقدمہ الزام نمبر 06/2025درک کرکے مزید تفتیش شروع کردی گئی ہے۔مقدمہ کے مطابق ملزم ارمغان کے خلاف اس وقت ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 36/2025درج کرکے تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔جب مصطفی عامر قتل کیس کے بعد پولیس کے مقدمہ کی تفتیش میں اینٹی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے پولیس کی جانب سے ایف آئی اے کو تحریری ریفرل بھیجا گیا۔مذکرہ ریفرل میں بتایا گیا کہ ملز ارمغان کو 8فروری 2025کو ڈیفنس خیابان مومن اسٹریٹ نمبر 07کے بنگلہ نمبر 35/36سے چھاپہ مار کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔ملزم کے خلاف اب تک مجموعی طور پر 09مقدمات درج ہیں جن میں کسٹمز کے 2مقدمات 2019میں درج ہوئے۔جبکہ فائرنگ اقدام قتل کے دو مقدمات گزری اور درخشاں تھانوں میں 2024میں در ج ہوئے۔اسی طرح سے 2025میں درخشاں تھانے اور اینٹی وائلنٹ کرائمز یونٹ (اے وی سی یو) میں پانچ مقدمات اغواء،قتل،فائرنگ،انسداد دہشت گردی وغیرہ کی دفعات کے تحت درج ہوئے۔

دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے تحت تحقیقات کا آغاز ہونے کے بعد ملزم کی رہائش گاہ پر چلائے جانے والے کال سینٹر میں کی جانے والی کارروائی میں 18لیپ ٹاپ کے ساتھ مختلف دستاویزات بھی قبضے میں لی گئیں اور ملزم کے ملازمین کو بھی طلب کرکے تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی جن کے بیانات کو کیس کا حصہ بنایا گیا۔اس چھان بین میں مذکورہ کال سینٹر اور لیپ ٹاپس سے دنیا بھر شہریوں کے کاروبار کا ڈیٹا رکھنے والی بین القوامی کمپنیوں یونائیڈ اسٹیٹ پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آرگنائزیشن اور ورلڈ انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے حوالے سے ایسے اسکرپٹ ملے جو کہ کال سینٹرز کے ملازمین کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کی معلومات حاصل کرنے اور ان سے فراڈ کرنے کے لئے استعمال کئے جارہے تھے۔

تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ کال سینٹر کے ملازمین ارمغان کی ہدایات پر خود کو ان دو امریکی کمپنیوں کا نمائندہ ظاہر کرکے غیر ملکی شہریوں سے ان کے بینک اکاؤنٹس،ان کی کمپنیوں اور کاروبار کے ساتھ ذاتی ڈیٹاکی معلومات حاصل کرلیا کرتے تھے۔اور بالآخر ان متاثرین کے بینک کارڈز سے بٹوری گئی رقوم کو ارمغان کے اکاؤنٹس میں منتقل کردیا کرتے تھے۔ارمغان کی جانب سے ڈیجیٹل راڈ اور منی لانڈرنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے کی گئی تحقیقا میں معلوم ہوا کہ ارمغان نے اپنے کیریئر کا آغاز 2015سے معروف زمانہ ایگزیکٹ سافٹ ویئر ہاؤس،بعد ازاں ڈی جی ایکس پرائیویٹ لمیٹڈ اور آئی بیکس میں کام کرتے ہوئے کیا۔اس کے بعد جب اس نے اپنا ذاتی کام کرنے کا سوچا تو اس سے پہلے ہی کی گئی منظم منصوبہ بندی کے تحت اس نے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے ڈبہ کال سنٹر چلانے کی پلاننگ کی۔جس کے تحت اس نے2018میں امریکہ شہر میری لینڈ میں آئیڈا کمیونیکیشن ایل ایل س (AIDA) کے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کی اور اس کو امریکہ میں ہونے والا کورابر ظاہر کرکے کراچی میں اپنے گھر سے چلاتا رہا۔

ملزم کے ملازمین سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایک وقت میں کال سینٹر سے 25کالنگ ایجنٹ دنیا بھر میں زیادہ تر امریکہ میں شہریوں کو پھانسنے میں مشغول رہتے تے اور روازنہ کا ٹارٹ ہوتا تھا کہ کم س کم 5متاثرین کو شکار کرلیا جائے۔اس طرح سے معمول کے مطابق ایک شخص کے بینک کھاتے سے4سے 9ہزار ڈالر اڑا لئے جاتے تے۔یہ رقم ماہانہ 4لاکھ ڈالرز یعنی 11 کروڑ کے لگ بھگ بن جاتی تھی جسے کرپٹو کرنسی میں تبدیل کرکے ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں پارک کردیا جاتا تھا۔ان اکاؤنٹس کے خفیہ پاسپورڈ ارمغان کے پاس ہیں۔کرپٹو کی لین دین کے لئے پیکس فل ٹو اور نو ونس کمپنیوں کے آن لائن پی ٹو پی اکاؤنٹس استعمال کئے جاتے تے۔جبکہ روزمرزہ اخراجات کے لئے ذاتی ملازمین کے ناموں پر کھولے گئے بینک اکاؤنٹس کو استعمال کیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے نے اب تک کی تحقیقات میں ارمغان 15کروڑ روپے مالیت کی 8کاروں کا سراغ لگا کر ان کو نجمد کردیا ہے جن کی ادائیگیاں کرپٹو کرنسی میں کی گئیں۔ان لگژری کاروں میں کیااسپورٹیج،فورڈ،فورڈ ریپٹر،ہونڈائی سوناٹا،ہونڈائی ریوو،اوڈی ای اور پریوس شامل ہیں۔جبکہ مزید جرائم کی کمائی سے بنائے گئے مزید اثاثوں کا سراغ لگایا جا رہا ہے جس کے لئے ارمغان کے ساتھ اس کے والد کامران قریشی کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔