ممنوعہ انجکشن کی اسمگلنگ کے سرغنوں میں نعمان، کاشف علی، آصمف علی ، زنیر، علی گھٹا ،مصطفیٰ سکندر،کلیم ،عمران سنگا پوری،رضوان ،فیصل عرف لنگڑ،عمیر بھوری اور آصف ماماااپنے دیگر ساتھیوں سمیت شامل ہیں۔ ان تمام بڑے کھیپی اسمگلروں کے درجنوں کارندے مختلف ایئر پورٹس استعمال کر رہے ہیں

 

رپورٹ:عمران خان

کراچی:گائے بھینسوں میں دودھ کے اضافے کے لئے لگائے جانے والے مضر صحت ممنوعہ ہارمونز انجکشن نابالغ لڑکیوں کی جلد بڑھوتری کے لئے استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔لاہور اور کراچی کے مخصوص علاقوں کے ایجنٹ ممنوعہ بوسٹن انجکشن کے اسمگلروں سے بھاری قیمت پر یہ انجکشن حاصل کرکے نابالغ بچیوں پر قد اور جسمانی غدود کی جلدی نشونما کے لئے غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں جنہیںمختلف مقاصد کے لئے بھی تیار کیا جاتا ہے ۔
انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ بوسٹن انجکشن کے اسمگر متعلقہ اداروں کے تمام تر دعووں کے باجود ملکی ایئر پورٹس سے ممنوعہ انجکشن کی اتنی بھاری کھیپ مسلسل لانے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ اب مویشیوں پر استعمال کرنے کے ساتھ ہی ممنوعہ ہارمونز انجکشن اب بردہ فروشوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں اور وہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں ۔
انڈس گزٹ سے بات کرتے ہوئے ڈریپ ( ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ) کے ایک سینئر افسر نے تصدیق کی ہے کہ یہ انجکشن جو کہ ( سوماٹو ٹروپن ) فارمولے کا ہے اور بوسٹن سمیت سوماٹیک وغیرہ کے برانڈ ناموں سے تیار ہو کر اسمگل ہوتا ہے۔اس کو جسمانی غدود میں غیر فطری اضافے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جانوروں میں اس کے کثرت سے استعمال کے نتیجے میں استعمال کرنے والوں پر بھی مضر صحت اور غیر فطری اثرات نمایا ہونے لگتے ہیں جن میں بچے بچیوں کا وقت سے پہلے جوان ہوجانے جیسے عوامل شامل ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے کئی ایسے گروپوں کے ایجنٹوں نے کراچی میں بوسٹن انجکشن کے اسمگلروں اور سپلائرز سے رابطے قائم کر لئے ہیںجوکہ انہیں مسلسل انجکشن سپلائی کر رہے ہیں تاہم بوسٹن انجکشن کے اسمگلروں نے اس بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو اپنے منافع کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔جو انجکشن باڑہ مالکان کو فی انجکشن 2500سے 2800میں دیا جاتا ہے وہی انجکشن نابالغ لڑکیوں پر استعمال کرنے کے لئے 4سے 5ہزار میں فروخت کیاجاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق جمشید روڈ کا رہائشی نعمان اس وقت ممنوعہ انجکشن کی اسمگلنگ اور سپلائی کا مرکزی کردار ہے ۔کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے بھی اس کی تلاش میں تھی ۔نعمان نے رمضان المبارک میں ایئر پورٹ پر تعینات بعض کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے تین کروڑ روپے مالیت کے ممنوعہ بوسٹن انجکشن کی کھیپ منگوا کر آدھی فروخت کرچکا ہے اور اب نصف کھیپ لاہور میں زائد قیمت پر فروخت کرنے کے لئے گھر کے فریزر میں چھپا کر بیٹھا ہے ۔نعمان کا ایک بھائی اس وقت ساﺅتھ افریقہ میں مقیم ہے جو کہ ممنوعہ ہارمونز انجکشن جمع کرکے کراچی بھجواتا ہے۔
ذرائع کے بقول ایف بی ایریا کا رہائشی کاشف علی نامی ممنوعہ انجکشن کا اسمگل ساﺅتھ افریقہ سے بوسٹن انجکشن کی بھاری مقدار بجھوارہا ہے ۔کراچی میں کاشف علی کے دو بھائی آصف علی اور زنیر ممنوعہ انجکشن قیمت بڑھا کر 2800روپے تک فی انجکشن فروخت کر رہے ہیں ۔اس وقت بھی تقریباً 80لاکھ روپے کے انجکشن ان کے فریزر میں موجود ہیں ۔جنہیں نرخ بڑھا کر فروخت کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔
گزشتہ دنوں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی جانب سے اس ممنوعہ انجکشن کی اسمگلنگ اور فروخت میں ملوث ایک بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگاتے ہوئے 2بدنام زمانہ ملزمان علی گھٹا اور مصطفی سکندر کو گرفتار کیا تھا جس کی تفتیش میں طارق روڈ ، شارع فیصل اور لالو کھیت کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میںکروڑوں روپے مالیت کے انجکشن ضبط کئے تھے ۔اس کیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ کلیم نامی ملزم سپلائی گروپ کا سرغنہ ہے جو کہ اپنے رشتے دار منیب کے ذریعے انجکشن فروخت کرتا تھا ۔کسٹمز انٹیلی جنس نے منیب کے گھر سے ہزاروں انجکشن بر آمد کئے جبکہ کلیم فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔

اسی کیس کی تفتیش کے بعد تحقیقات میں ممنوعہ انجکشن کی اسمگلنگ اور فروخت سے منسلک 17سرگرم گروپوں کی نشاندہی ہوئی تھی ۔ جن کے سرغنوں میں نعمان، کاشف علی، آصمف علی ، زنیر، علی گھٹا ،مصطفیٰ سکندر،کلیم ،عمران سنگا پوری،رضوان ،فیصل عرف لنگڑ،عمیر بھوری اور آصف ماماااپنے دیگر ساتھیوں سمیت شامل ہیں۔ ان تمام بڑے کھیپی اسمگلروں کے درجنوں کارندے مختلف ایئر پورٹس استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ تمام اسمگلر ناطم آباد ،لالو کھیت ،ایف بی ایریا ،طارق روڈ کے بعض گھروں اور فلیٹوں کے علاوہ صدر الیکٹرانک مارکیٹ کے موبائل ایسسریز رکھنے والی دکانیں ان انجکشن کو رکھنے کے لئے گودام کے طور پر استعمال کرنے لگے ۔

ان اسمگلروں کے کراچی میں درجنوں کارندے اور ڈیلرز ہیں جن سے یہ ارشد ناگوری،ماجد ناگوری،رفیق عرف چڈھی ،طارق میڈیکل والا ، ویٹرنی ڈاکٹر ہیمنداس ،شاہد اور اویس کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں ۔اس پورے نیٹ ورک نے بھینس کالونی ،ملیر ،گڈاپ ،لانڈھی ،میمن گوٹھ ،بن قاسم ،بلدیہ سمیت دیگر علاقوں میں میڈیکل اسٹورز کانیٹ ورک قائم کررکھا ہے۔ جبکہ بعض پرانے ویٹرنی ڈاکٹرز بھی ان کے نیٹ ورک میں شامل ہیں ۔ان میں سے کئی افراد کے اب اپنے برے باڑے ہیں جن میں 1000سے زائد بھینسیں موجود ہیں ۔
امت کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسمگلنگ کے اس مذموم دھندے کا مرکز کئی برسوں سے کراچی کو بنا کر رکھا گیا ہے جہاں سے دیگر شہروں کو بھی سپلائی دی جاتی ہے تاہم اب پنجاب کے بعض بڑے اسمگلروں نے بھی کراچی کے پرانے کھیپی ایجنٹوں سے ساز باز کرکے پنجاب میں ایک بڑا نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جس کے لئے اسلام آباد ،لاہور اور ملتان سمیت دیگر ایئر پورٹس استعمال کئے جانے لگے ہیں ۔
پانچ برس قبل ہارمونز انجکشن کے استعمال سے کینسر سمیت دیگر بیماریوں کے مضر صحت اثرات سامنے آنے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے ان کی تیاری اور فروخت غیر قانونی قرار دے دی تھی ۔اس سے قبل ملک میں آئی سی آئی سمیت بعض بڑی فارما سوٹیکل کمپنیاں یہ انجکشن تیار کرکے فروخت کر رہی تھیں ۔تاہم پابندی لگنے کے بعد اس انجکشن کی بیرون ملک سے کھیپوں میں اسمگلنگ شروع کردی گئی ۔اور مقامی مارکیٹ میں جو انجکشن پہلے 300روپے میں فروخت ہوتا تھا آج وہ 2500روپے میں فروخت ہو رہا ہے ۔
اس انجکشن کے کاروبار میں منافع کی انتہائی زیادہ شرح کی وجہ سے الیکٹرانک اور موبائل فونز کی اسمگلنگ کا کام کرنے والے کئی گروپ انجکشن کی اسمگلنگ میں شامل ہوگئے ۔جن میں نعمان ،کاشف علی ،آصف علی ،زنیر، علی گٹھا، مصطفی، عمران سنگا پوری،علی افریقہ ،آصف ماما،طلحہٰ ،الیاس ،نعمان او ر اکرم بلوچ کے گروپ کئی برسوں سے سرگرم ہیں ۔جن کے کیریئر ہر پرواز سے فی کھیپ 1000سے 1500انجکشن سامان میں چھپا کر لاتے ہیں ۔پنجا ب سے یومیہ آنے والی کھیپ کو ڈمپ کرنے کے لئے کراچی میں صدر الیکٹرانک مارکیٹ کی اسٹار مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹوں میں بالائی منزلوں پر موجود گوداموں کو موبائل فونز اور اسسریز کی آڑ میں انجکشن کی کھیپ رکھنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مضر صحت سوما ٹیک اور بوسٹن کے مضر صحت انجکشن اسمگلروں کے کارندوں کے ذریعے ساﺅتھافریقہ۔میکسیکو وغیرہ سے دبئی اور ایران تک منگوایا جااتا ہے جہاں سے ایئر پورٹس اور سمندری راستے سے اسمگل کرکے اسمگلر پاکستان منگوا رہے ہیں کیونکہ اس وقت یہ انجکشن ساﺅتھ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں مویشیوں کے بڑے بڑے فارمز میں خفیہ طور پربن رہے ہیں اور وہاں کی بلیک اور گرے مارکیٹ سے باآسانی خرید ے جا سکتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ان کی پروڈکشن اور فروخت پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔