رپورٹ : عمران خان
کراچی: اسمگلروں نے کروڑوں روپے مالیت کی گدھے کی کھالوں سے بھرے 3کنٹینرز پکڑے جانے کے خدشات کے تحت سمندر میں ڈبو دئے ۔مذکورہ کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ سے دیگر قسم کے سامان میں چھپا کر چین اسمگل کئے جا رہے تھے۔کسٹمز تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ عرصہ میں پاکستان سے گدھے کی کھالوں کی چین اور دیگر مشرقی بعید کے ممالک کو اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے محکمہ اعدادوشمار ( اسٹیٹیکس ڈپارٹمنٹ ) کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد اور نشونما میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس کے باجود ان پر ڈیوٹی اور ٹیکس زیادہ عائد ہونے کی وجہ سے اسمگلر دیگر قسم کے سامان میں چھپا کر اسے اسمگل کرتے ہیں تاکہ کروڑوں روپے کی ڈیوٹی اور ٹیکس بچانے کے علاوہ بیرون ملک سے زر مبادلہ کی مد میں وصول ہونے والے لاکھوں ڈالرز بھی بیرون ملک ہی وصول کرکے سرمائے میں لگائے جاسکیں ۔
کسٹمز ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسمگلروں کی جانب سے سمندر میں ڈبوئے گئے کنٹینرز کے واقعہ پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے ۔اس کے لئے کراچی کی بندگاہ کے متعلقہ ٹرمینل انتظامیہ اور وہاں پر تعینات کسٹمز اپریزمنٹ ایکسپورٹ کے افسران کو پوچھ گچھ میں شامل کرلیا گیا ہے ۔متعلقہ دفاتر سے اس کمپنی کی معلومات حاصل کر لی گئی ہیں جس کے نام سے یہ کنٹینرز بیرون ملک بجھوائے جا رہے تھے ۔جبکہ اس بر آمدکنندہ کمپنی مالکان کے کلیئرنگ ایجنٹ اور چین کی اس کمپنی کی معلومات بھی حاصل کر لی گئی ہیں جنہوں نے یہ ساما ن منگوایا تھا ۔
کسٹمز ذرائع کے بقول گدھوں کی کھالوں کی اسمگلنگ کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک دوسری واردات کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ پاکستان سے ہانگ کانگ اسمگل کی جانے والی 3 ہزار گدھوں کی کھالیں لاہور سے کراچی لائی گئیں۔گوشت لاہور کے مقامی ہوٹلوں کو فروخت کردیا گیا ۔اس کیس میں ایک کھیپ پکڑے جانے پر کئی کنٹینرز غائب کر دیئے گئے۔اس کیس میں کسٹمز کلکٹریٹ ایکسپورٹ کراچی کے حکام نے گدھے کی گوشت کی لاہور کے ہوٹلوں پر مبینہ فروخت روکنے کے لئے لاہور میں چیف سیکرٹری کو خط بھی ارسال کیا ۔
اس ضمن میں ملنے والی دستاویزات کے مطابق کسٹم ایکسپورٹ کلکٹریٹ کراچی کے حکام نے ملک سے ہزاروں گدھوں کی کھالیں ادویات میں استعمال کے لئے چین اسمگل کرنے والے ملک گیر نیٹ ورک کا سراغ لگاکر 4کمپنیوں کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی ۔بتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ گدھوں کی کھالیں چین اسمگل کرنے کے لئے نمک اور رومال کی بر آمد کی آڑ میں پہلے ہانک کانگ منتقل کی جاتی ہے۔ جہاں سے بین القوامی نیٹ ورک کے ذریعے اسے چین منتقل کردیا جاتا ہے ۔
تفتیش میں ملوث کمپنیوں برآمدکنندہ میسرزخان ٹریڈرزکے مالک خان اللہ ،میسرزالمقتدرکے خلیل مقتدراورکلیئرنگ ایجنٹ میسرزٹریڈلنک انٹرنیشنل اورسی یونائیٹڈ لاجسٹک کی جانب سے ماضی میں بر آمد کی جانے والی اسی نوعیت کی کھیپوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔کسٹم ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں لاہور انتظامیہ اور چیف سیکرٹری پنجاب کے علم میں بھی لایا گیا کہ کثیر تعداد میں گدھوں کی کھالوں کا بیرون ملک اسمگل ہونا اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ ان گدھوں کا گوشت کہاں جارہا ہے ۔کہیں حسب معمول زندہ دلان لاہور کی خوش خوراکی میں تو استعمال نہیںہورہا۔
دستاویزات کے مطابق کلکٹرایکسپورٹ کو خفیہ اطلاع ملی کہ گرین چینل کے ذریعے ہانگ کانگ برآمدکئے جانے والے برآمدی کنسائمنٹ میں نمک اوررومال کی آڑمیں ممنوعہ اشیاءکی اسمگلنگ کی کوشش کی جارہی تھی۔ جس پر ہانگ کانگ برآمدکئے جانے والے کنسائمنٹس کی سخت نگرانی شروع کی گئی ۔تاہم اسی دوران معلوم ہوا کہ ایک کھیپ ہانگ کانگ جانے کے لئے روانہ ہوچکی ہے۔ جس پر فوری طور پر رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات ڈپارٹمنٹ کے حکام کو رابطے میں لایا گیا اور ساتھ ہی ہانگ کانگ کے کسٹم حکام اور کھیپ لے جانے والی کمپنی کو خطوط رسال کئے گئے تاکہ اس کھیپ کو فوری طور پر کراچی کی بندرگاہ پر واپس لایا جاسکے ۔
کسٹز حکام کی یہ کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور کراچی کی بندرگاہ سے ہانگ کانگ جانے والی یہ کھیپ واپس منگوالی گئی ۔ کنسائمنٹ کو کلیئر کروانے کے لئے جمع کی جانے والی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات کو چیک کرنے کے ساتھ ہی کھیپ کی فزیکل جانچ پڑتال کی گئی ۔جس میں انکشاف ہواکہ برآمدکنندہ میسرزخان ٹریڈرزنے دستاویزات میں کنسائمنٹ کو نمک اوررومال ظاہرکیاتھا ۔جبکہ کنسائمنٹ سے 9ہزار 650 کلوگرام گدھے کی کھالیں برآمدہوئیں۔
ابتدائی تفتیشمیں انکشاف ہواکہ میسرزالمقتدرسروسزکے خالد مقتدر نے گدھے کی کھالوں کے لئے فریٹ فاروڈرمیسرزسی یونائٹیڈلاجسٹک کے ذریعے کنٹینربک کروایا جبکہ کلیئرنگ ایجنٹ میسرزٹریڈلنک انٹرنیشنل نے برآمدکنندہ میسرز خان ٹریڈرزکی ملی بھگت سے گدھے کی کھالیں اسمگل کرنے کی واردات انجام دی۔درج کی گئی ایف آئی آرکے مطابق میسرزخان ٹریدڑزاور خلیل مقتدرنے مس ڈیکلریشن کے ذریعے نمک اوررومال کے کنسائمنٹ کی آڑمیں گدھے کی کھالیں ہانگ کانگ اسمگل کرنے کی کوشش کی۔واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے گدھے کی کھالیں برآمدکرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
کسٹم ذرائع کے مطابق چونکہ گدھے کی کھالوں کو خشک کرنے کے بعد بھیجا جاتا ہے۔ اس لئے یہ کھالیں وزن میں ہلکی ہوتی ہیں اگر ایک کھال 3کلو وزنی ہوتی ہے تو 9ہزار سے زائد کھالوں کے لئے 3ہزار سے زائد گدھو ں کو مارا گیا ۔یہاں یہ حقیقت بھی سنگین ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں باربرداری کے لئے حاصل کئے جانے والے گدھے کی قیمت 50سے 60ہزار کے درمیان تھی۔جوکہ بکروں اور دیگر مویشیوں سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تاہم انہیں چونکہ صرف گوشت کے حصول کے لئے نہیں مارا جاتا بلکہ ان کی کھال ہی سب سے اہم ہوتی ہے ۔ضبط کی جانے والی کھالوں کی مالیت کا اندازہ ہانگ کانگ میں 42ملین ہانگ کانگ ڈالرز یعنی 11کروڑ 30لاکھ روپے سے بھی زائد تھی ۔
یہ کھالیں چین میں تیار ہونے والی کاسمیٹکس کی مہنگی ترین ادویات ،کریموں اور دواﺅں میں استعمال کی جاتی ہیں ۔جس کے لئے سب سے پہلے اس سے ایک خاص قسم کی جیلی (گلوٹین) تیار کی جاتی ہے ۔جبکہ چین کی کئی ادویہ ساز کمپنیوں کا سارا دارومدار ہی پاکستان سے غیر قانونی طور پر ملنے والی گدھوں کی کھالوں کی سپلائی پر ہے اور یہ اسمگلنگ سالانہ اربوں روپے کا حجم رکھتی ہے ۔