رپورٹ :عمران خان
کراچی:ایف آئی اے کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کو کو حالیہ دنوں میں اوپر نیچے اپنے احکامات کے نتیجے میں دو عدالتوں میں سبکی کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔
پہلے لاہور میں ڈیپوٹیشن پر تعینات 2ڈپٹی ڈائریکٹر کو واپس اصل ڈپارٹمنٹ میں بھیجنے کے بجائے ایف آئی اے میں دوبارہ تعینات کرنے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے آفس کے احکامات کو معطل قراردیا گیا جبکہ گزشتہ روز وفاقی سروس ٹربیونل کی عدالت کی جانب سے 19گریڈ کے ایف آئی اے افسر کو صرف چند ماہ میں 4بار یہاں سے وہاں ٹرانسفر کرنے پر نوٹیفکیشن پر حکم امتناع دے کر جواب طلب کرلیا گیا۔
معلومات کے مطابق کراچی میں فیڈرل سروس ٹربیونل نے سیکریٹری داخلہ اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو ایجنسی کے ایک اہلکار کی جانب سے ان کے متواتر تبادلوں کے خلاف اپیل پر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔بختیار احمد چنہ، ایڈیشنل ڈائریکٹر (لیگل)، ایف آئی اے، بلوچستان زون، نے ٹربیونل کے سامنے اپیل دائر کی۔
اپیل میں درخواست کی گئی کہ اسلام آباد میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں ان کے تبادلے سے متعلق 27 ستمبر 2023 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
ابتدائی سماعت کے بعد توقیر احمد خان اور شاہد احمد پر مشتمل ٹربیونل نے جواب دہندگان کو نوٹس جاری کیا کہ وہ سماعت کی اگلی تاریخ سے پہلے اس اپیل پراپنی رپورٹ پیش کریں اور 15 نومبر تک تبادلے کے حکم پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
اپیل کنندہ نے بتایا کہ انہیں 29 اگست 2023 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رضامندی کے بعد ایف آئی اے بلوچستان زون کوئٹہ منتقل کیا گیا۔لیکن 3 اکتوبر کو ایک بار پھر انہیں 27 ستمبرکا جاری کیا گیا ٹرانسفر لیٹر موصول ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تعیناتی کے ایک ماہ کے اندر ان کو دوبارہ ٹرانسفر کرناجو کہ انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بختیار چنہ نے کہا کہ ان کے پاس ڈائریکٹر کے عہدے (BPS-20) پر ترقی کے لیے مطلوبہ قالیت اور معیار موجود ہےجس کے لئے انہیں پروموشن بورڈ کی میٹنگ کا انتظار ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سال 2022-2023 میں ان کا اکثر تبادلہ کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ کم از کم اپنی سہ ماہی کارکردگی کی کوئی رپورٹ حاصل نہیں کر سکے جو اگلے سکیل پر ترقی کے لیے لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ ٹرانسفر آرڈر پر عمل کیا گیا تو وہ مزید تین ماہ کی پی۔ای-آر حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ متواتر تبادلوں کی وجہ سے وہ سال 2023 میں ایک بھی PER حاصل نہیں کر سکے۔ اس لئے موجودہ تبادلے کے آرڈرعمل درآمد متعصبانہ ہو گا جس سے درخواست گزار کی اگلے عہدے پر ترقی کو خطرہ لاحق ہے۔
اس سے چند روز قبل ہی لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ نے دو ڈپٹی ڈائریکٹرز عقیل الرحمان،ندیم عمار کی تقرریوں کیخلاف درخواست پرڈی جی ایف آئی اے سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عقیل الرحمان اور ندیم عمار پراسیکوشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور لائ افسر کام کر رہے تھے انکو سیاسی بنیادوں پر تین سالوں کے لیے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے لاہور میں تعینات کیا گیا،مدت پوری ہونے کے بعدایف آئی اے نے ان دونوں افسران کی خدمات پراسیکوشن کو واپس کر دیں۔
جبکہ پراسیکوشن ڈپارٹمنٹ نے دونوں افسران کو واپس آکر جوائننگ نہ دینے پر معطل کر دیا۔لیکن پھر بھی دونوں افسران غیر قانونی طور پرایف ائی اے میں کام کر رہے ہیں۔عدالت سے استدعا ہے کہ دونوں افسران کی بطور ایف آئی اے ڈیپوٹیشن پر تقرریاں کالعدم قرار دے۔