قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) میں سینکڑوں بھرتیوں اور ترقیوں کے لئے ڈی پی سی کے عمل کو روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ملوث افراد کے خلاف انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔
کمیٹی کے مطابق ادارے کے حوالے سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق بھرتیوں کے عمل میں صوبائی کوٹے کا خیال نہیں رکھا گیا جبکہپاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے)کے بعض اعلیٰ افسران کے منظور نظر ماتحت ملازمین اور رشتے داروں نے اوپری سیٹوں کے لئے بھرتیوں کے عمل میں حصہ لیا جنہیں نجی ٹیسٹنگ کمپنی یو ٹی ایس کی جانب سے جاری کئے جانے والے نتائج میں حیرت انگیز طور پر 95فیصد نمبر د ے کر 19اور 18گریڈ کی اسامیوں کے لئے میرٹ پر سر فہرست قرار دیا گیا ۔
اسی طرح سے ترقیوں کے لئے کی جانے والی ڈی پی سی میں ممبران اپنے ہی بہن بھائیوں کے انٹرویو لے رہے ہیں جو کہ شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔گزشتہ روز کمیٹی کے اجلاس کے دوران پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ بھرتیوں کے عمل سے منسلک پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے ڈائریکٹر ایڈمن عبوری چارج پر تعینات ہیں جنہیں اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی عہدے سے ہٹا دیا جائے گا ۔
اسلام آباد میں سینیٹر سردار محمد شفیق ترین کی سربراہی میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹ کمیٹی نے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی میں بھرتی کے عمل پر غور کیا۔ سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے)میں بھرتیوں کے لئے نجی ٹیسٹنگ کمپنی یو ٹی ایس کی خدمات کے حصول پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پبلک ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس اینڈ نسٹ) کی خدمات کیوں حاصل نہیں کی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھرتی کے عمل میں بھی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئی ہیں اور اس حوالے سے متعدد امیدواروں نے قائمہ کمیٹی سے رجوع کیا ہے۔اس اجلاس میں حکام نے بتایا کہ حکومتی پالیسی کے مطابق ٹھیکہ سب سے کم بولی دینے والے کو دیاگیا ہے ۔تاہم بعد ازاں کمیٹی نے پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے)میں بھرتیوں کے ساتھ ہی ادارے میں 119افسران کی ترقیوں کے لئے ہونے والی محکمہ جاتی ڈی پی سی کے عمل کو بھی روکنے کی ہدایات جاری کردیں کیونکہ اس میں بھی قرباءپروری اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
گزشتہ برس کے آخر میں یعنی دسمبر 2022میں پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے)کی جانب سے قومی اخبارات میں 280سے زائد بھرتیوں کے اشتہارات دئے گئے جس میں گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 19تک کے افسران کی اسامیاں شامل ہیں ۔ پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے جو افسران ان بھرتیوں سے منسلک ڈائریکٹر ایڈمن ،سیکرٹری پی ایس کیو سی اور ڈی جی عارضی چارج لے کر بیٹھے ہیں اور قانونی طور پر ان کے پاس یہ اختیار ہی موجود نہیں ہے۔ بھرتیوں کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ڈائریکٹر ایڈمن سید علی محمد بخاری نے بھرتیوں کے لئے یو ٹی ایس ٹیسٹنگ سروس سے معاہدہ کیا وہ خود عارضی چارج لے کر بیٹھے ہیں ۔
مذکورہ نجی کمپنی(یو ٹی ایس) اور پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے ملوث افسران نے سینکڑوں بھرتیوں کے اشتہارات کے بعد ملک بھر سے ہزاروں نوجوان امیدار شہریوں سے درخواستوں کی فیس کی مد میں بھاری رقوم صول کرلی۔ قائم مقام ڈائریکٹر ایڈمن سید علی بخاری کے خلاف ایف آئی اے میں 2015سے تحقیقات جاری ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ان کے ڈائریکٹر ایڈمن بننے کے 4روز بعد ہی ان کے خلاف نیب تحقیقات میں ادارے کو مراسلہ موصو ل ہوا جس میں ان سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا ۔
گزشتہ روز ہی پاکستان اسٹینڈرڈ این ڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے ہیڈ آفس کی جانب سے مراسلہ جاری کیا گیا۔جس میں ادارے کے 119افسران اور اہلکاروں کی ترقیوں کے لئے اسلام آباد اور کراچی کے گلستان جوہر میں قائم مرکزی دفتر میں ڈپارٹمنٹل پروموش کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔انمعاملات بھی من پسند افسران کے لئے نمٹانے کے لئے تیزی سے کئے جا رہے ہیں جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اسے روکنے کی ہدایات دی ہیں ۔