کراچی: انڈس گزٹ

” ریاست جوناگڑھ پاکستان کا حصہ ہے اور میرے دادا نواب مہابت خانجی نے قائداعظم کے ایک مرتبہ کہنے پر پاکستان سے غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا۔تقسیم ہند کے بعد بھارت سرکار “ریاستجونا گڑھ میں موجود تاریخی سومنات کے مندر کا افتتاح کرنا چاہ رہی تھی اور اس وقت کے بھارتی حکمرانوں کی یہ خواہش تھی کہ سومنات کے مندر کا افتتاح ریاست جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی کریں لیکن نواب مہابت خانجی نے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مندر کا افتتاح کرنے سے انکار کردیاتھا ۔ان خیالات کا اظہار سابق گورنر سندھ محمد دلاور خانجی نواب آف ریاست جوناگڑھ کی صاحبزادی محترمہ نوابزادی عالیہ خانجی نے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ۔

نوابزادی عالیہ خانجی اپنے آبائ اجداد کے سنہری ماضی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے

نوابزادی عالیہ خانجی کے مطابق تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ موجودہ گجرات کے بڑے رقبے پر قائم ایسی ریاست تھی جس کے حکمران کو اس وقت 13توپوں کی سلامی ملا کرتی تھی جبکہ اطراف کی چھوٹی ریاستٰیں اپنی خود مختیاری کو برقرا رکھنے کے لئے سالانہ مالیہ دے کر اس کی باجگزار رہیں ۔تقسیم ہند سے قبل بر صغیر پاک و ہند میں 580سے زائد پرنسلے ریاستیں تھیں جنہیں ان کی اہمیت ،طاقت اور رقبے کے لحاظ سے 21سے 3توپوں تک کی سلامی تاج برطانیہ کے تحت دی جاتی تھی۔ریاست حیدر آباد جموں کشمیر سمیت 7ایسی ریاستیں تھیں جن کے نواب اور مہاراجہ کو 21توپوں کی سلامی ملتی تھی ۔اسی وجہ سے غیر معمولی کام کرنے والے کے لئے اردو میں 13توپوں کی سلامی دینے کی ضرب المثل رائج ہوئی“۔
نوابزادی عالیہ خانجی کا کہنا تھا کہ کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت سرکار “ریاستجونا گڑھ میں موجود تاریخی سومنات کے مندر کا افتتاح کرنا چاہ رہی تھی اور اس وقت کے بھارتی حکمرانوں کی یہ خواہش تھی کہ سومنات کے مندر کا افتتاح ریاست ج±ونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی کریں لیکن نواب مہابت خانجی نے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مندر کا افتتاح کرنے سے انکار کردیا ۔نوابزادی عالیہ خانجی صاحبہ نے مزید بتایا کہ ریاست جوناگڑھ ایک غیر متنازع ریاست ہے اور پاکستان کا حصہ ہے جس پر انڈیا نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور ہم انشاءااللہ تعالی ج±ونا گڑھ کو حاصل کرکے رہیں گے ۔
عالیہ خانجی کا مزید کہنا تھا کہ ان کے دادا نواب مہابت خانجی ریاست جونا گڑھ کے آخری عملی نواب تھے۔جو کہ تقسیم پاکستان کے وقت کراچی میں موجود تھے ۔اس وقت سابق وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو کے والد سر شہنواز بھٹو ان کے دادا نواب مہابت خانجی کے دیوان یعنی ریاست کے وزیر اعطم تھے ۔کراچی میں موجودگی کے دوران ہی مہابت خانجی نے بطور ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔تاہم اس وقت بھارت نے غیر قانونی طور پر ریاست میں فوجیں داخل کردیں ۔جس کے بعد نواب مہابت خانجی واپس نہ جاسکے۔جبکہ ریاست کے محلوں میں تاج و تخت، سونے ہیرے اور دیگر جواہرات کے درجنوں صندوق ،درباروں کی سونے اور چاندی کی کرسیاں ،جاگیریں ،جدائیدیں سب وہیں رہ گئے۔نواب مہابت خان کے پاس صرف وہ اعزازی سونے کے اور ہیروں کے سیٹ بچے تھے جو کہ ہر وقت نواب کی حیثیت سے ان کے شاہی لباس کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔پاکستان میں انہیں ہی فروخت کرکے انہوں نے کراچی کا پہلا [’جونا گڑھ ہاﺅس“ خریدا تھا ۔یعنی یہ ایسے شخص تھے جنہوں نے اس وقت کھربوں روپے مالیت کی ریاست صرف پاکستان کی محبت میں چھوڑی اور پاکستان میں کچھ کلیم بھی نہیں کیا ۔اس کے بعد اسی خلوص اور محب کی روایت کو ان کے والد اور اگلے نواب جونا گڑھ دلاور خانجی نے آگے بڑھائے رکھا۔ان کے انتقال کے بعد اب وہ سجھتی ہیں کہ یہ شمع انہوں نے آگے بڑھانی ہے۔اس خاندان میں موجود پاکستان سے بے پایاں محبت ان کے لئے ایک اعزاز ہے۔
دوران انٹرویو انہوںنے حکومت پاکستان کا اور خصوصا پاک فوج کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ریاست جونا گڑھ کو پاکستان کے سیاسی نقشہ میں شامل کیا۔اس کے علاوہ محترمہ نوابزادی عالیہ خانجی صاحبہ نے بتایا کہ کوءتقریبا 30لاکھ جونا گڑھی عوام بھی جونا گڑھ سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ” ہمیں ا±نکے مسائل بھی ترجیحی ب±نیادوں پر حل کرنا ہیں جس کے لئیے ہم حکومت پاکستان درخواست گذار ہیں اور خصوصا سندھ حکومت سے بھی کہ جوناگڑھی عوام کے مسائل کے حل میں ہماری مدد کریں “۔ہ نوابزادی عالیہ خانجی صاحبہ اپنے مرحوم والد نواب محمد دلاور خانجی کاذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ا±نکے والد نواب محمد دلاور خانجی ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں گورنر سندھ رہے ہیں ±انکی وفات کے بعد بڑے بھاءمحمد جہانگیر خانجی نے بطور نواب جوناگڑھ کی گدی سنبھالی اور افسردہ لہجے بتایا کہ نواب جہانگیر کی وفات سے ایک کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوا ہے جو کہ جوناگڑھ کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔اس کے علاوہ نوابزادی عالیہ خانجی صاحبہ نے بتایا کہ انکے آباو جداد کا بنیادی طور پر فوجی ہیں جیسا کہ ان کے جد امجدشیر خان مغل شہزادے مراد کے منصب دار تھے جوکہ جنرل کے عہدے کے برابر ہے ۔
عالیہ خانجی کے مطابق وہ اقوام متحدہ میں بھی ریاست جونا گڑھ کا مقدمہ لڑیں گے اور وہ سمجھتی ہیں کہ ان پرپر فرض ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے جونا گڑھ سے انڈیا کا غاصبانہ قبضہ ختم کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”جونا گڑھ ہمارا اثاثہ ہے اور غیور قوم اپنے اثاثہ جات کے تحفظ کرنا جانتی ہے۔انھوں مزید بتایا کہ ا±نکے گھر میں “جونا گڑھ ہاوس “ فلسطینی راہنما یاسر عرفات ، بشارالاسد ودیگراسلامی ممالک کے سربراہان کے ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم بھی تشریف لا چکے ہیں“۔
نوابزادی عالیہ خانجی کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کا تعلق افغانستان کے علاقے تیراہ سے ہے ۔ان کے آباﺅ اجداد مغل افواج کے ساتھ ہند میں آئے تھے ۔ان کے جد امجد شیر خان مغل شہزادے مراد کے منصب دار تھے جنہیں مراٹھا قبائل کی سرکشی کچلنے کے لئے اس علاقے میں بھیجا گیا تھا۔اس کے بعد سے ہی ریاست جونا گڑھ کی بنیاد پڑی اور ان کے خاندان میں آخر تک ریاست کے 13نواب حکمران کی حیثیت سے گزرے۔