رپورٹ : عمران خان
کراچی:جعلی ادویات مافیا کے بڑے گروپوں کو بڑا ریلیف ملنے کا انکشاف ہوا ہے ۔کراچی کے کئی اہم اضلاع گزشتہ کئی مہینوں سے بغیر ڈریپ انسپکٹرز ( ایف آئی ڈیز ) کے چلائے جا رہے ہیں ۔جس کے نتیجے میں ان اضلاع میں جعلی ادویات کی فیکٹریاں اور گودام چلانے والوں کے خلاف کارروائیاں تعطل کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں ۔

اربوں روپے کے اس دھندے کے خلاف ایف آئی اے کا آپریشن بھی اس وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ملک بھر میں جعلی ادویات مافیا کے خلاف کارروائیوں کو اپنی ترجیح قرار دے کر ڈی جی ایف آئی اے کو بار ہا احکامات جاری کرچکے ہیں ۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے جہاں ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے وہیں ملک میں سرگرم ہر قسم کی مافیا کا سب سے بڑا ہدف بھی رہا ہے ۔ایسے ہی جعلی ادویات مافیا کے بڑے نیٹ ورک اس شہر میں کام کرتے چلے آئے ہیں جو کہ کراچی سے ملک بھر میں جعلی،غیر معیاری اور اسمگل شدہ ادویات سپلائی کرتے رہے ہیں ۔
اربوں روپے کا سالانہ دھندہ ایک جانب مگر اس وقے حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ اس مذموم کاروبار میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف مقدمات بنوانے کے ذمے دار وفاقی ادارہ ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی کے متعدد اضلاع بشمول ضلع ساﺅتھ ،ضلع ویسٹ ،ضلع وسطی اور ضلع شرقی کے اضلع بغیر فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کے چلائے جا رہے ہیں ۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ قوانین کے تحت ایف آئی اے کو جب بھی کسی جعلی ادویات کی فیکٹری یا گودام کی خفیہ اطلاع موصول ہوتی ہے تو انہیں اکیلے جانے کے بجائے ڈریپ کے متعلقہ علاقے کے افسران کو ساتھ لے کر جانا ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ کیس ڈرگ ایکٹ کے تحت بنائے جاتے ہیں جن کو عدالت میں اسی وقت پیش کیا جاسکتا ہے جب ان کیسوں میں ڈریپ کے انسپکٹرز ضبط شدہ سامان کی رپورٹ ( سیزر میمو) اپنے قواعد کے تحت بنائیں ۔
اس کے بعد یہی افسر ڈریپ کی جانب سے ایف آئی اے کو مذکورہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مدعی کی حیثیت سے تحریری کمپلین جاری کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ان تمام سرکاری امور کو مکمل کرنے کے بعد ہی ایف آئی اے کے افسران اپنا کیس بنا کر اس پر اپنی تفتیش کو آگے بڑھا سکتے ہیں بصورت دیگر عدالتوں سے اس سقم کی بنیاد پر کیس خارج کردئے جانے کا امکان موجود رہتا ہے ۔
ذرائع کے بقول اس صورتحال کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے ایف آئی اے کی متعدد کارروائیاں متاثر ہوچکی ہیں ۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے کراچی زونل ڈائریکٹوریٹ آفس کو اور مختلف سرکلوں کواب تک انفارمز کے نیٹ ورک سے کئی ایسی اطلاعات ملیں جن پر اگر ڈریپ افسران بروقت دستیاب ہونے پر چھاپے مارے جاتے تو کروڑوں روپے کی جعلی ،اسمگل شدہ اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے ساتھ کئی مضبوط کیس بن سکتے تھے ۔تاہم ایسا صرف اس وجہ سے نہ ہوسکا کہ جب ایف آئی اے افسران نے ڈریپ کراچی آفس سے رابطہ کیا گیا تو متعلقہ حکام نے بتایا کہ مذکورہ علاقوں کے اضلع کے لئے ڈریپ انسپکٹرز دستیاب نہیں ہیں ۔کئی ماہ گزر جانے کے باجود ڈریپ ہیڈ کوارٹرز کی جانب سے ان اضلاع میں ایف آئی ڈیز کی پوسٹنگ نہیں کی گئی ہے جوکہ ایک حیران کن امر ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ معاملہ اب زیادہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے گزشتہ دنوں یہ صورتحال ایف آئی اے کے سرکلوں کی جانب سے زونل ہیڈ کوارٹر کراچی کے ڈائریکٹر نعمان صدیقی کے علم میں لائی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ کیسے ڈریپ حکام کی وجہ سے متعدد کیس التواءمیں ہیں تو ان کی جانب سے بھی اس پر نوٹس لیا گیا اورڈریپ کراچی کے افسران کو بلا کر ایک میٹنگ کی گئی ۔
اس میٹنگ کے بعد ڈائریکٹر کراچی کی جانب سے ڈائریکتوریٹ جنرل ایف آئی اے کے توسط سے ڈریپ ہیڈ کوارٹر اسلام آباد اور وفاقی ہیلتھ منسٹری کو بھی آگاہ کیا گیا کہ جلد از جلد صورتحال پر ایکشن لیا جائے تاہم حیرت انگیز طور پر ڈریپ حکام نے اب تک اس پر کوئی عمل نہیں کیا ۔بلکہ ڈریپ کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈاکتر عاصم کی جانب سے ڈریپ کراچی کے افسران کو تحریری طور پر پابند کردیا گیا کہ اس موضوع پر کسی سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کی جائے اور اگر کسی افسر نے کوئی بات کی تو اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
اس وقت صرف ضلع ملیر میں ایک ایف آئی ڈی کی پوسٹنگ ہے جوکہ ملیر کے علاقوں کے ساتھ ہی پورے سندھ کے اضلاع کو دیکھ رہے ہیں ۔واضح رہے کہ ضلع وسطی ،ضلع غربی کی اپنی جگی اہمیت ہے کہ یہاں کراچی کے انتہائی پرہجوم اور پوش علاقے بھی قئام ہیں جہاں ہزاروں میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز اور ادویات کے گودام ہیں اور سینکڑوں ڈرگ ڈیلراور سپلائران سے منسلک ہیں ۔انہی علاقوں میں سائٹ ایریا ،نیو کراچی صنعتی ایریا اور ایف بی صنتعی ایریا میں قائم میڈیسن کمپنیاں بھی شامل ہیں ۔جن کے کوالٹی اسٹینڈرز کی جانچ پڑتال ایک مخصوص مدت میں کرنا ڈریپ کا کام ہے ۔تاہم ضلع ساﺅتھ وہ اہم علاقہ ہے جہاں صدر سمیت اولڈ سٹی ایریا کی مارکیٹوں کے ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ قائم ہے ۔جہاں یومیہ بنیادوں پر کروڑوں روپے کی ادویات کا ہول سیل کا کاروبار ہوتا ہے ۔
ایف آئی اے کی بعض حالیہ کارروائیوں کی تحقیقات میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ جان بچانے والی کئی اہم ادویات کے ساتھ جنسی ادویات سمیت درجنوں اقسام کی جعلی ،ناقص اور اسمگل شدہ ادویات کے علاوہ ایکسائر ادویات یہاں سے بڑے پیمانے پر سپلائی ہوتی رہی ہیں ۔یہاں ڈیلروں نے سینکڑوں چھوٹے بڑے گودام بنا رکھے ہیں اور متعدد کارروائیوں میں یہاں سے مینو فیکچرنگ اور پیکنگ کی غیر قانونی فیکٹریاں مشینوں سمیت پکڑی جاچکی ہیں ۔
ایسی ہی تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ خود میڈیسن مارکیٹ ایسوسی ایشن کے بعض موجودہ اور سابق عہدیدار جعلی اور اسمگل شدہ ادویات مافیا کی سرپرستی کرتے رہے ہیں اور ان کو متعلقہ سرٹیفکیٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔اس کے عوض انہوں نے کروڑوں روپے کا منافع کمیشن کی صورت میں کمایا ہے ۔اس ضمن میں جب امت کی جانب سے ڈریپ کے سی ای او ڈاکٹر عاصم سے موقف کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا ۔