ایف آئی اے تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ روالپنڈی کے خود کشی کرنے والے شہری محمد مسعود نے سرمایہ مائیکرو فنانس پرائیویٹ لمیٹیڈ (SarmayaMicrofinance )کے نام سے مالیاتی لین دین کا کاروبار کرنے والی کمپنی کی ایزی لون ایپ(EasyLoan) سے قرضہ لیا تھا ۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ کمپنی صرف ڈیڑھ برس قبل نان بینکنگ فنانس کمپنیز کے تحت ایس ای سی پی رجسٹرڈ ہوئی تاہم حیرت انگیز طور پر صرف چند ماہ میں اس کمپنی کے خلاف سینکڑوں شہریوں کی شکایات ایس ای سی پی کو موصول ہوئیں ۔
ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ستمبر تک ملک بھر سے ایس ای سی پی کو 288شہریوں نے کمپنی کے حوالے سے شکایات درج کروائیں جس میں زیادہ تر شکایات انتہائی زیادہ شرح سود کی تھیں جبکہ بعض شکایات میں شہریوں نے کمپنی کی جانب سے قرضے کی اہم معلومات خفیہ رکھنے کی شکایت کی ۔
حالیہ واقعہ پر ایف آئی اے نے گزشتہ روز تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مذکورہ مالیاتی کمپنی کے مالکان اور انتظامیہ کو شامل تفتیش کرتے ہوئے ان کے اسلام آباد سیکٹر جی ایٹ فور میں قائم دونوں مرکزی دفاتر کو سیل کردیا ہے ۔
مائیکرو فنانس پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی(SarmayaMicrofinance) کے دفاتر سیل کرنے سے قبل ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے دفاتر سے متعلقہ لیپ ٹاپ،کمپیوٹرز اور دستاویزی ریکارڈ پر مشتمل ثبوت قبضے میں لے لئے ہیں جنہیں فارنسک چھان بین کے لئے بھجو ادیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے نے متوفی محمد مسعود کے موبائل فون سے ملنے والے کالز ریکارڈ اور پیغامات کو بھی کیس فائل کا حصہ بنادیا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی تحقیقات میں مبینہ طور پر متوفی مسعود کو کمپنی کے ریکوری نمائندوں سے موصول ہونے والی کالز کی فارنسک چھان بین بھی شرو ع کردی گئی ہے اور منظر عام پر آنے والی دھمکی آمیز کال کو متوفی مسعود کے موبائل پر آنے والی کالز کے نمبروں سے ملنے والے ڈیٹا سے میچ کیا جا رہا ہے جبکہ دھمکی آمیز کال کرنے والے اور بلیک میل کرنے والے نمائندوں کو ٹریس کرنے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے تاکہ انہیں حراست میں لے کر پس پردہ اصل ملزمان سے تک پہنچا جاسکے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اسی تناظر میں ایک لون ایپ کے نمائندے کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی ہے۔اس آڈیو میں اسے یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مسعود نے کمپنی کو 22 ہزار روپے ادا کرنے ہیں۔ متعلقہ آڈیو میں یہ نمائندہ کہتا ہے کہ” یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے؟ میں تم لوگوں کے گھروں میں کالیں کروں وہ اچھا رہے گا؟“۔تاہم جب اس نمائندے کو بتایا جاتا ہے کہ مسعود نے تو صرف 13 ہزار روپے لیے تھے تو اس پر آگے سے جواب آتا ہے کہ’ ’تم لوگ سارے فراڈئیے ہو۔“قرض واپس نہ کرنے پر دھمکی آمیز لہجے میں مبینہ نمائندہ کہتا ہے کہ ”میں سارے کنٹیکٹ نمبروں پر کالیں کروں گا۔ ہمارے پاس گیلری (تصاویر اور ویڈیوز) تک رسائی ہوتی ہے۔“۔
اہم ذرائع کے بقول تحقیقات میں کمپنی کے مالکان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کمپنی کی ایپ سے قرضہ لینے والوں کو اس کے نمائندے انتظامیہ یا مالکان کی جانب سے دی جانے والی پالیسی کے مطابق رابطہ کرکے دھمکیاں دینے کے ساتھ اس کے نجی ڈیٹا کو استعمال کرکے بلیک میل کر رہے تھے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے متوفی کے اہل خانہ کے بیانات قلمبند کر لئے ہیں جبکہ کمپنی کی انتظامیہ اور ماللکان سے بھی پوچھ گچھ شروع کردی ہے جس کے لئے بعض افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔
دوسری جانب روالپنڈی کے تھانہ ریس کوررس میں درج ہونے والے مقدمہ میں پولیس کی جانب سے کی گئی تفتیش اور بیانات کا ریکارڈ بھی ایف آئی اے کو فراہم کردیا گیا ہے ۔امت کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق روالپنڈی کے رہائشی اور دو بچوں کے باپ محمود مسعود کی جانب سے قرض پر سود کی رقم مسلسل بڑھنے کے بعد پریشانی کے عالم میں خود کشی کی گئی اور واقعہ سامنے آنے پر مقامی پولیس تھانہ ریس کورس میں مقدمہ درج کیا گیا تاہم بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محسن بٹ کی جانب سے ا س معاملے پر ایکشن لیتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ روالپنڈی کو خصوصی ٹاسک دیا گیا اور تحقیقات کرکے جلد از جلد رپورٹ طلب کرلی گئی ۔
اس معاملے کی سنگینی اور مستقبل میں اس کے روک تھام کے لئے ڈی جی تمام ایسی قرضہ ایپ کے حوالے سے بھی رپورٹ مرتب کرنے اور چھان بین کرنے کی ہدایات دی ہیں ۔جس پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ روالپنڈی عبدالرﺅف کی زیر نگرانی ٹیم نے انسپکٹر بدر شہزاد کی سربراہی میں کام شروع کردیا ہے اور ایک انکوائری رجسٹرڈ کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق مائیکرو فنانس کمپنی سرمایہ کاری اور مختلف مالیاتی سروس فراہم کرنے کا کاروبار کرنے کے لئے 2022کے آغاز میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس 1984اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز رولز 2003 اور2008کے تحت رجسٹرڈ ہوئی ۔
جس نے بعد ازاں قرضے کا آن لائن کاروبار کرنے کے لئے ایزی لون اور پی کے لون کے نام سے ایپس متعارف کروائی ۔ جس میں سے ایزی لون ایپ کو بھی ایس ای سی پی میں نان بینکنگ فنانس کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کروایا گیا ۔جبکہ پی کے لون ایپ ایسے ہی بغیر رجسٹریشن کے چلائی جا رہی ہے۔اس کے ذریعے شہریوں کو آسان شرائط پر آسانی سے اپنے موبائل میں گوگل پلے اسٹور سے ایپ ڈاﺅن لوڈ کرکے صف اپنے شناختی کارڈ کی تفصیلات اور فون نمبرز کے کوائف پر 3ہزار سے 30ہزار تک قرضہ دینے کی سروس شروع کی گئی ۔جس پر شرح سود ہفتے کے حساب سے لگتی ہے اور ہر ہفتے صارفین کو ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بھی غیر قانونی لون ایپس کے حوالے سے معلومات لی جا رہی ہیں جبکہ غیر قانونی لون ایپس کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے سے درخواست کی جائے گی۔