عمران خان
کراچی:ایف آئی اے نے اسمگلنگ تحقیقات میں کراچی کی بندرگاہوںسے سوئٹ سپاریوں فیکٹریوں کے لئے مضر صحت چھالیہ کی کلیئرنگ کروانے والے نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ابتدائی طور پر ملنے والی اطلاعات پرکراچی پورٹ سے کلیئر ہونے والے 56ٹن چھالیہ کے 4کنٹینرز کو روک کر متعدد کلیئرنگ ایجنٹوں کو حراست میں لے کر کاکا ٹریڈرز کے محمد رضوان اور غلام محمد کلیئرنگ ایجنسی کے رحیم ،ابراہیم ،دانش عبدالرزاق اور حنیف میمن کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سےکارروائی میں جن کلیئرنگ ایجنٹوں کو حراست میں لیا گیا انہیں تفتیش میں رکھ کر چھوڑا گیا ۔جبکہ روکے گئے چاروں کنٹینرز کی کلیئرنس کے لئے جمع کروائے جانے والے دستاویزات کی چھان بین کی جا رہی ہے ۔جس میں اپریزمنٹ کسٹمز افسران کے ساتھ پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسرا ن کے کردار کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے اسمگلنگ اسکینڈل تحقیقات میں مرکزی کردار عمران یوسف نورانی کی 3بے نامی کمپنیوں کا سراغ لگاتے ہوئے گزشتہ دنوں گلیکسی نامی کمپنی کے دفتر سے 3ملزمان فیضان ،بلال قادری اور فرقان کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی ایک درجن سے زائد بڑی اور معروف سوئٹ سپوری کمپنیوں کو کئی برسوں سے کراچی پورٹ کے ٹرمینلز سے قانونی چھالیہ کی در آمد کی آڑ میں جعلی دستاویزات پر منہ کے کینسر کا سبب بننے والی فنگس لگی مضر صحت چھالیہ سپلائی کرنے میں ملوث نیٹ ورک کا سراغ لگاتے ہوئے معروف کلیئرنگ ایجنٹ اور در آمدی کمپنیوں کاکا ٹریڈرز اور غلام محمد ٹریڈرز کے مالکان محمد رضوان اور رحیم،دانش عبدالرزاق ،ابراہیم،،حنیف میمن کے خلاف تفتیش شروع کردی۔
تحقیقات میں ایف آئی اے کی جانب سے 10سوئٹ سپاری فیکٹریوں کو نوٹس ارسال کرنے کے بعد اب ان تمامفیکٹریوں پر چھاپے مار کر ان کو سینکڑوں ٹن چھالیہ ،پیکنگ میٹریل کے ساتھ سیل کردیا گیا ہے جبکہ فیکٹریوں کے لئے در آمد کئے جانے والے 60ٹن سے زائد چھالیہ کے 4کنٹینرز بھی ضبط کر لئے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کی تحقیقات اور نوتس پر ایک جانب سوئٹ سپاری مالکان غائب ہوگئے اور ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا تاہم دوسری جانب مذکورہ سوئٹ سپاری فیکٹریوں کا روبار کھلے عام جاری رہا۔ مسلسل اسمگل شدہ اور مضر صحت چھالیہ سے سوئٹ سپاری کی پروڈکشن تیار ہوکر مارکیٹ کے 3بڑے بڑے ڈیلروں فیض اللہ بنارس ،اسامہ قادری کے فرنٹ مین سبحانی لیاقت آباد اور صفدر جوڑا بازار کے ذریعے ہول سیلر دکانداروں تک پہنچ رہی تھی۔حالیہ دنوں میں سپاری کا ریٹ 3200درجن سے 22درجن پر آگیا تھا۔جس کے لئے نعمان کے حوالے سے مارکیٹ میں اطلاع منظر عام پر آئی کہ ایف آئی اے سمیت تحقیقات سے منسلک اداروں سے معاملات طے ہوگئے ہیں اور چھالیہ کا کام شروع ہوگیا ہے۔
جن فیکٹریوں پر چھاپے مارے گئے ہیں ان میں بمبئی سوئٹ سپاری کی فیکٹری ،تارا سوئٹ سپاری کی فیکٹری ،نگینہ چھالیہ کی فیکٹری ،آنسہ فوڈکمپنی ،العزیز فوڈ پروڈکت کمپنی ،سنی ٹریڈز کی سنی چھالیہ کمپنی اور کرن فوڈ پروڈکٹ کمپنی شامل ہیں جبکہ انہی کمپنیوں کے نام پر منگوائی گئی چھالیہ کے 4کنٹینرز بھی ٹرمینل سے ایف آئی اے ٹیم نے ضبط کئے ہیں۔
تحقیقات میں محمد رضوان کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارنے کے ساتھ ہی کاکا ٹریڈرز کے دفاتر میں بھی چھان بین کی جا رہی ہے۔تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے تمام ٹرمینلز پر تعینات ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ایسٹ اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ویسٹ کے ایگزامننگ اور اسٹمنٹ کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے چھالیہ کے ہزاروں کنٹینرز کلیئر کرواگئے جنہیں شہر کی معروف اور بڑی سوئٹ سپاری بنانے والی فیکٹری مالکان کو سپلائی کیا گیا۔
مذکورہ کنٹینرز کو کلیئر کروانے کے عمل پر کاکا ٹریڈرز کے محمد رضوان اور غلام محمد کلیئرنگ ایجنسی کے رحیم کی مکمل اجارہ داری قائم رہی۔اس نیٹ ورک میں ان کے ساتھ دانش(دبئی فرار) ،ابراہیم ،عمران یوسف نورانی اور نعمان میمن اورحنیف میمن سرگرم رہے۔
تحقیقات میں معلوم ہوا ہے گزشتہ برسوں میں ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ایسٹ اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ویسٹ کے کراچی پورٹ کے ٹرمینلز سے زیادہ تر چھالیہ کے وہی کنٹینرز کلیئر ہوئے جنہیں کاکا ٹریڈرز اور غلام محمد کلیئرنگ ایجنسی کے محمد رضوان اور رحیم کلیئر کرواتے رہے۔ان کی اجارہ داری اس قدر زیادہ تھی کہ دوسرے کلیئرنگ ایجنٹوں کے توسط سے جن کنٹینرز کو کلیئرکروانے کے لئے گڈز ڈکلریشن داخل کی جاتی تھیں انہیں مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
تحقیقات کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سنی ٹریڈرز،بمبئی چھالیہ ،حنیف میمن ،تاسوئٹ سپاری ،نگینہ سوئٹ سپاری ،کرن سوئٹ سپاری کمپنی ،گولڈن فوڈ،صنم گولڈ، رابعہ اینڈ کو،آنسہ فوڈ العزیز فوڈ ،پیپسی چھالیہ سمیت دیگر نے ان دونوں کلیئرنگ ایجنٹوں کو ہی کام دے رکھا تھا۔جن میں سے محمد رضوان کسٹم ہا?س کے باہر کے معاملات یعنی دستاویزات کی تیاری وغیرہ دیکھتا رہا جبکہ رحیم کسٹم ہا?س کے اندر یعنی افسران سے معاملات طے کرنے کی ذمے داریاں نبھاتا رہا۔
کاکا ٹریڈرز کا چھالیہ ،مصالحے اور اجناس وغیر ہ کی در آمد کی بڑی کھیپ کی آڑ میں 10کروڑ روپے کے اسکینڈل میں 2013میں اس وقت در آمدی کمپنی کے ساتھ منسلک پائی گئی جب ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے افسر سعود حسن نے ٹیکس چوری کا کیس بنایا۔
بعد ازاں کاکا ٹریڈرز کے حوالے سے ہی دستاویزات سامنے آئیں کہ ایک ہی کسٹمز لائسنس 929پر محمد رضوان اور ان کے والد محمد عثمان کا کاٹریڈرز ہی کے نام پر کام کر رہے تھے جبکہ اس لائسنس 929پر دونوں کے علیحدہ علیحدہ ایس ٹی آر این نمبرز پر کلیئرنگ ایجنسی تھی۔
دونوں کمپنیوں خاص طور پر کاکا ٹریڈرز کے محمد رضوان کی جانب سے کسٹمز ہاﺅس ،پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ لیبارٹریز میں بھی مضبوط سیٹنگ بنائی گئی۔انہوں نے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ میں بھی سیٹنگ بنا کہ رکھی جہاں سے ان کے کنٹینرز کے لئے سرٹیفکیٹ مسلسل جاری ہوتے رہے جبکہ چھالیہ میں مضر صحت کیمیکل فنگس وغیرہ کی مقدار جانچنے والی لیبارٹری سے بھی انہیں چھالیہ کھانے کے قابل ہونے کے سرٹیفیکیٹ ملتے رہے۔
اس دوران ایک کنٹینر کے عوض لاکھوں روپے ایگزامننگ اور اسسمنٹ افسران کے توسط سے ڈپٹی کلکٹرز،اسسٹنٹ کلکٹرز ،ایڈیشنل کلکٹرز اور کلکٹر دفاتر سے لے کر ہیڈ کوارٹر ز تک جاتے رہے۔اسی طرح سے فی کنٹینرز 5سے 10ہزار روپے کارروائی کرنے والی فیلڈ فارمشنز اور متعلقہ اداروں کے دفاتر تک پہنچتے رہے۔ہزاروں کنٹینرز کی کلیئرنس پر یہ رقم گزشتہ ایک دہائی میں اربوں روپے بنتی ہے۔
واضح رہے کہ میگا اسمگلنگ اسکینڈل پرایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی کی جانب سے درج مقدمہ الزام نمبر 19/2023میں سنی ٹریڈر کمپنی کے مالک نعمان میمن کے بھائی عمران یوسف نورانی کو بلوچستان کے راستے کراچی میں چھالیہ اسمگلنگ کے مرکزی کرداروں میں نامزد کیا گیا۔اس کے چالان کے مطابق سنی چھالیہ کی فیکٹری سنی ٹریڈرز کے مالک نعمان میمن عرف نعمان ڈان کے بھائی عمران یوسف نورانی اپنی فیکٹری کے علاوہ سوئٹ سپاری بنانے والی ایک درجن فیکٹریوں بشمول نگینہ سوئٹ سپاری چھالیہ کرن فوڈ، سنی سوئٹ سپاری چھالیہ سنی ٹریڈرز،تارا سوئٹ سپاری چھالیہ ،ٹیسٹی سوئٹ سپاری چھالیہ،بمبئی سوئٹ سپاری چھالیہ حسین آباد، رجنی سوئٹ سپاری چھالیہ غنی چورنگی،عزیز پروڈکٹس ،آنسہ فوڈز،رابعہ اینڈ کو،گولڈن فوڈ وغیرہ کے لئے اسمگل شدہ مضر صحت چھالیہ کی سپلائی کا نیٹ ورک چلانے کے لئے پولیس اور کسٹم افسران کو رشوت دیتا رہا۔جبکہ عاطف میٹروبمبئی چھالیہ اور رجنی چھالیہ کا علیحدہ نیٹ ورک چلاتا رہا۔عاطف میٹر چھالیہ ،بمبئی چھالیہ اور رجنی چھالیہ کی فیکٹریوں کے لئے اسمگلنگ کی چھالیہ کی سپلائی کی رشوت خود کسٹم اور پولیس افسران کو دیتا رہا۔