رپورٹ : عمران خان
کراچی : ایف بی آر کی تحقیقات میں کراچی سے چلائے جانے والے ایک ہی نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں رجسٹرڈ کی گئی 200 بوگس کمپنیوں کے ذریعے 314 ارب کی جعلی سیلز انوائسز کے فراڈ کا انکشاف سامنے آگیا۔جس پر کراچی میں مقدمہ درج کرکے ملوث ملزمان کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
ابتدائی تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ مالیاتی اور جعلسازی کا بڑا فراڈ رواں برس 2023کے فروری کے مہینے سے لے کراپریل کے مہینے تک یعنی صرف2ماہ میں کئے گئے کاروبار کے حوالے سے جمع کروائی جانے والی جعلی انوائسوں پر کیا گیا ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت بھی ایف بی آر کے نظام میں اس قدر خامیاں موجود ہیں کہ جعلساز اب تک ملکی بھگت سے اس سے مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
تحقیقات میں شواہد سامنے آنے پر ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس ون ( آر ٹی او ) کراچی میں باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔مقدمہ میں اسکینڈل کے مرکزی ملزم کی حیثیت سے ماسٹر مائنڈ اویس اسماعیل نامی ملزم کو قرار دیا گیا ہے ۔ مرکزی ملزم اویس اسماعیل کوگرفتار کرنے کیلئےچھاپے مارے جا رہے ہیں۔ایف بی آر ذرائع کے مطابق گزشتہ روز اویس اسماعیل کی گرفتاری کے لئے گلشن اقبال کراچی میں دفتر پر چھاپہ ماراگیا۔جس میں اویس اسماعیل کے شناختی کارڈ کا ایڈریس بھی جعلی پایا گیا۔
ایف بی آرذرائع کے مطابق اس ملک میں فراڈیوں اور جعلسازوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایف بی آر کے نوٹس کے اجراءکے بعد بھی ٹیکس فراڈ میں ملوث کچھ کمپنیوں کے مالکان اور نمائندوں نے ایف بی آر سے سیلز ریفند کی رقم کلیم کرنے کے لئے واپسی کیلئے رابطہ کیا۔ جس پر جعلی سیلز ٹیکس انوائس پر خریداروں اور سپلائرز کی تفصیلات فیلڈ فارمیشنز سےشیئر کی جا چکی ہیں۔اس معاملے پر تمام متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کے چیف کمشنرز اور کمشنرز سے سیلز ریفنڈ کلیم کرنے کے لئے آنے والے رجسٹرڈ افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے لئے مراسلے ارسال کردئے گئے ہیں ۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب حالیہ عرصہ میں ایف بی آر کراچی کے آر ٹی او ون میں رجسٹرڈ ایک کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)کی جانب سے جمع کروائے گئے ریٹرنز کی چھان بین کی گئی جس میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے لوہے اور اسٹیل کے خام مال اور مصنوعات کے کاروبار کے لئے مختلف بینامی بینک اکاﺅنٹ استعمال کئے جن سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں ۔
تحقیقات میں مزید معلوم ہوا ہوا کہ کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)کی جانب سے اپنے دفاتر کے پتوں کے لئے مختلف جعلی ایڈریس بشمول لیاقت مارکیٹ ،اصغری مارکیٹ اور ایم اے جناح مارکیٹ کے پتے استعمال کئے گئے۔
اس ضمن میں درج کئے جانے والے مقدمہ کے مطابق مذکورہ کمپنی کے رواں برس فروری سے لے کر اگست تک کئے گئے جمع کروائے جانے والے ٹیکس ریٹرنز کی چھان بین کی گئی جس میں معلوم ہوا کہکمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)کے لئے رواں برس فروری کے مہینے میں سیلز ٹیکس رجسٹریشن حاصل کی گئی اور بعد ازاں اپریل میں کمپنی کی جانب سے جو سیلز ٹیکس ریٹرنز کی انوائسیں جمع کروائی گئیںان میں 1ہزار 748ارب روپے کی خریداریاں ظاہر کی گئیں جن پر 314ارب روپے سیلز ٹیکس بنتا ہے۔
مقدمہ کے مطابق کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)نے 2مختلف کمپنیوں محسن ٹریڈرز اورسیلز پروموٹرز لمیٹڈ کو سامان کی سپلائر کمپنیاںبتا کران کمپنیوں کی کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)کے نام بنائی گئی جعلی سامان کی فروخت کی بوگس انوائسوں کے ذریعے یہ 314ارب روپے کا بوگس سیلز ٹیکس ظاہرکیا۔ یہ معلومات سامنے آنے پر دونوں کمپنیوں محسن ٹریڈرز اور سیلز پروموٹرز کو بلیک لسٹ کردیا گیا۔
ایف بی آر ذرائع کے بقول مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے ریٹرنز جمع کروانے کے لئے متعلقہ انوائسیں تین مختلف ٹیکس کنسلٹنٹ کمپنیوں بلال حمید اینڈ کو ،بیکن لاءایسوسی ایٹ اور عبید لاءایسوسی ایٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے ۔ان کمپنیوں سے چھان بین کے لئے ان کے دفاتر پر وزت کئے گئے جہاں ان کمپنیوںکے دفاتر موجود پائے گئے ۔
تحقیقات میں عبید لاءایسوسی ایٹ کے عبید خان نے اپنے بیان میں اعتراف کرتے ہوئے ایف بی آر ٹیم کو بتایا کہ کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons)کے ریٹرنز ان کی کمپنی کی جانب سے سروس فراہم کرکے جمع کروائے گئے ۔عبید خان نے مزید بتایا کہ اس کمپنی کے ریٹرنز ان کے ایک ملازم حماد جاوید نے اس وقت جمع کروائے جب وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔
عبید خان نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ ان کی کمپنی کی جانب سے جو معلومات اور دستاویزات ایف بی آر میں جمع کروائی گئیں وہ انہیں کمپنی کی جانب سے اویس اسماعیل نے فراہم کی تھیں۔
اس تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس فرا ڈ کے لئے ملک بھر میں ایف بی آر کی مختلف شہرو ں کی فیلڈ فارمیشنز میں رجسٹرڈ کروائی گئی 200کمپنیوں کا تھریش ہول سامنے آیا ہے جن کی آپس میں ہونے والی خرید و فروخت کی دستاویزات بالا ٓخر محسن ٹریڈرز اور سیلز پروموٹررز تک پہنچیں ۔اس طرح سے یہ ایک ملک گیر پھیلا ہوا نیٹ ورک معلوم ہوا ہے ۔جس کے بعد پاکستان میں جعلی سیلز ٹیکس انوائس کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔
تحقیقات میں لگ بھگ 200 کمپنیوں کا جعلی سیلز ٹیکس انوائسز استعمال کرنے کا انکشاف ہونے پر ایف بی آر نے تمام جعلی انوائسز فراڈ میں ملوث کمپنیوں کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔
ایف بی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 200 کمپنیاں 314 ارب روپے کے ٹیکس فراڈ میں ملوث پائی گئیں، جعلی انوائس میں ملوث کمپنیوں میں کارپوریٹ ٹیکس آفس کراچی کی6 ،لاہور کی 69کمپنیاں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا کہ ٹیکس فراڈ میں لارج ٹیکس یونٹ اسلام آباد کی 7، کراچی کی 10 ،لاہور کی 43 کمپنیاں، ریجنل ٹیکس آفس ایبٹ آباد کی 10،گوجرانولہ کی 15 کمپنیاں، اسلام آباد کی 3، پشاور کی 20، سیالکوٹ کی 3، آرٹی او کراچی ون کی 8 آر ٹی او اور کراچی ٹو کی 39 کمپنیاں ملوث ہیں۔