رپورٹ : عمران خان
کراچی – ملک میں مضر صحت اور غیر قانونی چھالیہ کی اسمگلنگ ایک بار پھر عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق، بدنام زمانہ اسمگلر عمران نورانی نے چند ماہ کی خاموشی کے بعد اپنا نیٹ ورک دوبارہ پوری طاقت کے ساتھ فعال کرلیا ہے، اور اب یومیہ کروڑوں روپے کا دھندہ کسٹمز اے ایس او کےایک پریونٹو افسر کے ذریعے ڈپٹی کلکٹرآفس اور پولیس حکام کی مبینہ سرپرستی میں جاری ہے۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ حب کے مضافات میں قائم فیکٹریوں میں اسمگل شدہ چھالیہ سے تیار کی جانے والی مختلف برانڈز کی سوئٹ سپاریاں — جن میں تارا، ٹیسٹی، بمبئی، رتنا، سیون اپ اور دیگر شامل ہیں — روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں تیار کی جاتی ہیں۔ ان فیکٹریوں کو خاموشی سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حالانکہ ان میں استعمال ہونے والا خام مال صحت کے لیے مضر قرار دیا جا چکا ہے۔

چھالیہ کی ترسیل کا خفیہ راستہ
ذرائع کے مطابق، تیار شدہ سپاری کے ڈبے حب سے نکل کر ہمدرد یونیورسٹی چوکی کے قریب ایک خفیہ راستے سے کراچی منتقل کیے جاتے ہیں۔ یہ مال بدنام زمانہ اسمگلر برات ز کے ڈمپرز کے ذریعے ماڑی پور ٹرک اڈے کے قریب واقع گودام تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ سپلائی شہر کے پانچ بڑے چھالیہ ڈیلروں تک باقاعدگی سے روانہ کی جاتی ہے۔

سرکاری اداروں کی مبینہ ملی بھگت
تحقیقات کے مطابق، اس پورے نیٹ ورک کو کسٹمز انفورسمنٹ، ڈسٹرکٹ ویسٹ پولیس اور کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ، ویسٹ اور ایس اے پی ٹی کلکٹریٹ کی مبینہ سرپرستی حاصل ہے۔ذرائع کے مطابق کسٹمز اے ایس او کے پریونٹو افسر عمران مقصود نے چھالیہ کے سپلائر،کلیئرنس اور فیکٹری مالکان سے کسٹمز کا حصہ وصول کرنے کا ذمے دار ہے جس کو بعد ازاں کسٹمز کے مختلف دفاتر میں تقسیم کردیا جاتاہے۔ان کو ڈپٹی کلکٹر اآفس انفورسمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان اداروں سے وابستہ متعدد افسران روزانہ لاکھوں روپے رشوت کے عوض گوداموں اور ترسیل کے نظام کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ ماڑی پور میں واقع چھالیہ کے ان گوداموں کو پولیس کی باقاعدہ “سیکیورٹی” حاصل ہے، جہاں کوئی غیر متعلقہ شخص داخل نہیں ہو سکتا۔

عمران نورانی کا کردار دوبارہ نمایاں
اس نیٹ ورک کے مرکزی کردار عمران نورانی ہیں، جو معروف سپاری فیکٹری کے مالک نعمان میمن کے بھائی ہیں۔ عمران نورانی پر ایف آئی اے کے ایک بڑے کیس میں اسمگلنگ کا الزام بھی عائد ہوچکا ہے۔ اب وہ دوبارہ سرگرم ہوچکے ہیں اور فیکٹری مالکان کے لیے کسٹمز سے چھالیہ کلیئر کروانے سمیت تمام متعلقہ اداروں کو رشوت پہنچانے کا بھی ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کارروائی کے بعد یہ نیٹ ورک عارضی طور پر غیر فعال ہوگیا تھا، تاہم اب دوبارہ پوری شدت سے فعال ہوچکا ہے۔

عوامی صحت اور معیشت دونوں خطرے میں
طبی ماہرین کے مطابق یہ چھالیہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے اور منہ کے کینسر سمیت کئی جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ دوسری جانب، اس کی کھلے عام اسمگلنگ اور غیر قانونی فروخت سے حکومت کو بھاری مالی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔ قانونی درآمد کنندگان اور مقامی صنعتیں اس غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے شدید متاثر ہورہی ہیں۔

کارروائی کے مطالبات اور خاموشی سوالیہ نشان
شہری حلقے اور صحت کے ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ ایف آئی اے، کسٹمز اور پولیس کی موجودگی کے باوجود یہ نیٹ ورک کیسے کھلے عام کام کر رہا ہے۔ متعدد سماجی تنظیموں نے اس پر فوری اور مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، مگر اب تک کسی بھی ادارے نے کوئی بڑی پیش رفت ظاہر نہیں کی۔