رپورٹ : عمران خان
کراچی: پورٹ قاسم پر غیر بحری جہاز کے عملے کو ہراساں کرکے رشوت وصولی پر ایف آئی اے اہلکاروں کو زونل ہیڈ کوارٹر کلو کرکے ان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔
یہ بھی انکشاف سامنے آیا ہے کہ پورٹ قاسم پر ایف آئی اے امیگریشن کا تھانہ گزشتہ کئی برسوں سے بغیر کسی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ،انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے چلایا جاتا رہا ۔یہاں پر ایک کلرک عامر کئی برسوں سے تعینات ہے جوکہ ہمیشہ اپنا ٹرانسفر رکواکر واپس آجاتا ہے۔عامر کا ماضی میں بھی کئی انکوائریوں میں نام آچکا ہے ۔
اس وقت معاملے کی انکوائری ایف آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کے سپرد کرکے ڈائریکٹر کراچی زون نے جلد از جلد رپورٹ طلب کرلی ۔انکوائری میں اس سنگین پہلو کو سرفہرست رکھا جا رہا ہے کہ موجودہ بدترین معاشی صورتحال میں پاکستانی سمندری حدود میں آنے والے بحری جہازوں کو اگر اس طرح کی بلیک میلنگ اور رشوت ستانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ملک کے لئے عالمی سطح پر بدنامی کے ساتھ معاشی نقصان کا سبب بنتا ہے ۔
ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات میں شپنگ ایجنٹ ،جہاز کے کپتان کے بیانات حاصل کرلئے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر 3اہلکاروں کو معطل کرکے زونل ہیڈ کوارٹر میں کلو ز کردیا گیا ہے۔
اس ضمن مزید معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے غیر ملکی بحری جہاز کے عملے کو ہراساں کرکے لاکھوں روپے رشوت وصولی کے الزام پر 3 ایف آئی اے اہلکار وں اے ایس آئی عطاءاللہ میمن ،ہیڈ کانسٹیبل زوہیب میمن اور کانسٹیبل ولید کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی۔
ابتدائی طور پر ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی نعمان صدیقی کی ہدایات پر مذکورہ امیگریشن اہلکاروں کو پورٹ قاسم سے بندرگاہ کی ڈیوٹی سے ہٹا کر زونل ہیڈ کوارٹرمیں پابند کردیا گیا۔
موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے حکام کو ایک کمپلین ملی کہ 5ستمبر کو 5سمبر کو غیر ملکی مال بردار بحری جہاز” ایم وی کالے “پورٹ قاسم کی برتھ پر لنگر انداز ہوا جس کے بعد امیگریشن کی معمول کی کارروائی کے لئے ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکار اپنی کار میں وہاں آئے۔
ان میں سے اسسٹنٹ سب انسپکٹر عطاءاللہ میمن گاڑی میں بیٹھے رہے۔جبکہ ہیڈ کانسٹیبل زوہیب میمن اور سپاہی ولیداوشین ورلڈ پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کے افسر شپنگ ایجنٹ عبدالغنی اور ایک دوسرے ایجنٹ نعیم کے ساتھ جہاز پر گئے۔اس دوران انہوں نے دیگر عملے کی امیگریشن کے لئے دستاویزات چیک کیں اور کپتان کے ماسٹر روم اور میس کے اندر موجود 8تکنیکی عملے کے اسٹاف کی موجود پر اعتراض کردیا کہ یہ غیر قانونی طور پر جہاز پر موجود ہیں اور پاکستان کی سمندری حدود کے اندر ہیں۔
درخواست کے مطابق جب ایف آئی اے کے اسٹاف نے رومانیہ سے تعلق رکھنے والے ان 8تکنیکی اسٹاف کے افراد پر اعتراض کیا اس وقت ان کو بتایا گیا کہ ان کے تمام قانونی اور متعلقہ دستاویزات موجود تھیں۔تاہم ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکار نہ مانے اور واپس جا کر اپنے اے ایس آئی افسر کو بتایا۔اس کے بعد جہاز کے عملے کو کہا گیا کہ ان 8افراد کے حوالے سے فی شخص 5لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا۔
بعد ازاں اس معاملے میں ایف آئی اے اہلکاروں نے 4ہزارامریکی ڈالرزپر معاملہ حل کرنے کی ڈیمانڈ کردی۔تاہم بات چیت کے بعد یہ معاملہ بالآخر 2ہزارڈالرز پر طے کیا گیا جوکہ5لاکھ روپے سے زائد کی رقم بنتی ہے۔
درخواست کے مطابق اے ایس آئی اے کی جانب سے فون پر ہدایت دی گئی کہ سپاہی کو یہ رقم کیش دے دی جائے۔ادائیگی کے بعد ایف آئی اے اہلکاروں نے ان 8غیر ملکی افراد کے حوالے سے ان کی دستاویزات ہونے کے باجود ایک فہرست ردوبدل کرکے اپنی امیگریشن کلیئرنس کی لسٹ بنا دی اور جہاز کے عملے کو تھما کر جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
ذرائع کے بقول افسر عطاءمیمن کے ایک اعلیٰ ایف آئی اے افسر سے براہ راست تعلقات ہیں اور ابھی بھی وہ زونل آفس میں اثر رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر اس معاملے کی انکوائری ایف آئی اے امیگریشن کے ایک افسر کو دی گئی تاہم بعد ازاں ڈائریکٹر نے یہ تحقیقات اب ڈپٹی ڈائریکٹر اے ایچ ٹی سرکل کے سپرد کردی ہیں ۔
ذرائع کے بقول ایسی سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں کہ پورٹ قاسم یا کراچی پورٹ پر جہازوں کی امیگریشن کے معاملات سپاہیوں اور ہیڈ کانسٹبلز اور کلرکوں کے ہاتھ سے لے کر انسپکٹر یا اے ڈی لیول کے افسران کو دئے جائیں