ملک میں تمام نجی اور قومی بینکوں کے درمیان مالیاتی لین دین کے لئے چیکوں کی کلیئرنس کے ادارے نیشنل انسٹیٹیوشنل فیسلی ٹیشنل ٹیکنالوجی(NIFT)کے آن لائن سسٹم پر بڑے سائبر حملے کے حقائق نصف ماہ گزر جانے کے باجود دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔

ملک میں مالیاتی اداروں کے ریگو لیٹر اتھارٹی اور کھاتے دار شہریوں کے تحفظ کے ذمے دار ادارے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی اصل معاملات سامنے لانے کے بجائے پر اسرار خاموشی اختیار کی گئی ہے۔

اس ضمن میں شہریوں میں بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کیونکہ نہ تو نفٹ نے اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس واقعہ پر کسی سرکاری قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے کوئی تحقیقات کروائی ہیں ۔

دوسری جانب نفٹ کے ڈیٹا سینٹر پر سائبر حملے کو تقریبا 15 روز گزر جانے کے باجود ملک بھر میں خصوصی طور پر کراچی میں شہریوں کی جانب سے کلیئرنس کے لئے جمع کروائے جانے والے چیکوں کی مینوئل کلیئرنس کا سلسلہ انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے جبکہ اس کی آن لائن خودکار کلیئرنس کا نظام تاحال مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں شہریوں کے عید کے موقع پر اپنی ضروری ادائیگیوں میں مشکلات اور تاخیر کا سامنا ہے ۔

اطلاعات کے مطابق نفٹ کے ڈیٹا سینٹرز میں اس وقت 6کروڑ 70لاکھ سے زائد اکاﺅنٹس ہولڈرز کا ڈیٹا غیر محفوؓظ ہونے کے اندیشوں کی زد میں ہے تاہم نفٹ کی انتظامیہ مسلسل مذکورہ سائبر حملے کو ناکام بنانے اور اس سے ریکوری کے دعوے کر رہی ہے تاہم دوسری جانب اب ایسی غیر مصدقہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ نفٹ کے ڈیتا پر حملے کرنے والے ہیکروں کی جانب سے گزشتہ 16جون کو کئے جانے والے حملے میں مبینہ طور پرکئی ٹیرا بائٹ کا اہم ڈیٹا کامیابی سے ہتھیانے کا دعویٰ کیا ہے جس کی واپسی یا اس کو دیگر ہیکروں کو فروخت نہ کرنے کے عوض اب بڑے تاوان طلبی کی تیاری کی جا رہی ہے ۔حملے میں نفٹ (NIFT)کے سرورز میںسائبر نقب زنی کے ذریعے چوری کئے گئے ڈیٹا میں بھاری تعداد میں شہریوں کی جانب سے کلیئرنس کے لئے جمع کروائے گئے چیکوں کی اسکین کاپیاں اور یہاں تک کے ای پی کوڈ تک موجود ہیں جس کے انٹر نیٹ یا ڈارک ویب پر فروخت کے نتیجے میںایک بڑے مالیاتی فراڈ کے خدشات بڑھ گئے ہیں ۔یہاں تک کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس سنگین معاملے کو پر غیر سنجیدہ خاموشی اختیار کرکے اور حقائق کو پس پردہ رکھنے سے ملکی سلامتی داﺅ پر لگ سکتی ہے کیونکہ اس وقت ملکی معاشی صورتحال کا براہ راست تعلق ملکی استحقام سے ہے ۔

علاوہ ازیں نفٹ انتظامیہ مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ چیکوں کی کلیئرنس معمول پر آچکی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صارفین کی اس حوالے سے شکایات سامنے نہیں آرہی ہیں ۔تاہم امت کو گزشتہ روز بھی کئی صارفین کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ بعض بینکوں اور خصوصی طور پر ایک بڑے نجی بینک کی برانچوں میں ان کے چیکوں کی کلیئرنس تاخیر کا شکار ہو ئی ہے جس سے انہیں پریشانی اٹھانی پری ہے ۔اسٹیٹ بینک کے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کی ریگو لیٹر کی حیثیت سے یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ مالیاتی اداروں سے یہ یقینی بنوائے کہ وہ شہریوں کا اہم حساس مالیاتی ڈیٹا محفوظ بنائیں اور اس کو سائبرحملوں اور چوری سے بچائیں اس کے لئے یہ ادارے جدید اور بہترین سائبر سکیورٹی اور سافٹ ویئر استعمال کریں جبکہ اپنے متعلقہ اسٹاف کو بھی جدید سائبر سکیورٹی کے کورس کر واکر مہارت دلوائیں تاہم اس ضمن میں اسٹیٹ بینک کا نفٹ کے معاملے میں حالیہ کردار اور اس کے آڈٹ سسٹم پر بھی سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں ۔

معلومات کے مطابق گزشتہ ہفتے 16جون جمعہ کے روز پاکستان کے اہم خودکار چیک کلیئرنگ سسٹم (نِفٹ) پرسائبر حملے کے نتیجے میں اسلام آباد اور کراچی میں ڈیٹا سینٹرز متاثر ہونے کے باعث بینکوں کو چیک کلیئرنگ کے عمل کو معطل کرنے کی ہدایت کی گئی۔اس کے بعد نیشنل انسٹیٹیوشنل فیسیلیٹیشن ٹیکنالوجیز ‘نِفٹ کی جانب سے جاری کی گئی معلومات میں بتایا گیا کہ 16 جون بروز جمعہ کو ‘نفٹ’ کے سسٹمز کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اطلاع ملتے ہی حفاظتی اقدامات کے ذریعے فوری طور پر صورتحال پر قابو پالیا گیا جس سے ڈیٹا اور سسٹمز کسی بڑے نقصان سے بچ گئے۔

اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ نفٹ کی ٹیمیں اس حملے کی نوعیت اور کسی بھی ممکنہ خطرے کو سمجھنے کیلئے سائبر حملے کی کوشش کی مکمل چھان بین کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے یہ یقینی بنایا جارہا ہے کہ سروسز مکمل طور پر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے سسٹمز محفوظ رہیں۔اسی بیان میں امکان ظاہر کیا گیا کہ 19 جون 2023 بروز پیر تک کلیئرنگ سروسز کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے کام کیا جا رہا ہے ۔اسی بیان میںبتایا گیا کہ نفٹ نے سائبر حملے کی کوشش سے منسلک کسی بھی خطرے کو کم کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کیے ہیںِفٹ’ پاکستان کے 43 بینکوں کا چیک کلیئرنگ ہائوس ہے جہاں ‘امیج بیسڈ کلیئرنگ سروسز’ کے ذریعے سالانہ 46 کھرب روپے اور یومیہ اوسطا!150ارب روپے کی انٹر بینک چیک ادائیگیاں کلیئر کی جاتی ہیں۔

اس ضمن میںمعلوم ہوا کہ نفٹ کی جانب سے بینکوں میں کلیئرنس کے لئے آنے والے چیکوں کو جمع کرکے کلیئرنس کے لئے لانے والے رائیڈرز اور استاف کو بھی ہدایات دیں کہ وہ بینکوں سے چیک اٹھانا نہ چھوڑیں لیکن ان کو کلیئرنس کے عمل سے گزار کر دوسرے متعلقہ بینکوں میں جمع کروانے کا عمل روک دیں اور یہی ہدایات بینکوں کو بھی دی گئیں تاکہ شہریوں کی جانب سے چیک جمع کروانے کا عمل رکنے سے عوام میں پریشانی کا لہر نہ دوڑ سکے ۔اور معاملات کو معمول کے مطابق ظاہر کرکے چلایا جاسکے ۔تاہم جمعرات اور جمعہ سے کلیئرنس کے لئے آنے والے چیکوں کو کلیئرنس کے عمل کے بعد متعلقہ بینکوں میں جمع کروانے کا عمل جزوی طور پر گزشتہ مہینے کے کے آخری عشرے کے  پیر اور مکمل طور پر منگل کے روز سے دوبارہ شروع کیا گیا ۔

گزشتہ دنوں عید سے سے قبل آخری ورکنگ ڈے تک بھی ملک کے ایک بڑے نجی بینک حبیب بینک لمیٹڈ کی ملک بھر کی برانچوں میں نفٹ کے ساتھ آن لائن خودکار کلیئرنس سسٹم فعال نہیں ہوسکا ۔ جس کی وجہ سے اب بھی سینکڑوں کھاتے داروں کی اربوں روپے کی ادائیگیوں کی مینوئل کلیئرنس کی وجہ سے تکمیل اب لگ بھگ ایک ہفتے سے تاخیر کا شکار ہورہی ہے ۔