رپورٹ : عمران خان
کراچی: ایف آئی اے کی جانب سے حالیہ دنوں میں عمرہ اور حج کی آڑ میں اربوں روپے کی حوالہ ہنڈی کرنے والی ٹریول ایجنسیوں کے خلاف وزارت داخلہ کی ہدایات پر کریک ڈاﺅن شروع کیا ہے۔یہ کریک ڈاﺅن نیکٹا کی سفارشات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔
کراچی چونکہ سب اس حوالے سے سب سے بڑا مرکز ہے ۔اس لئے اب تک کراچی میں ایف آئی اے امیرکی ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی خریدو فروخت ملوث متعدد ٹریول ایجنسیوں کے خلاف چھاپے مار کر کیس بنائے ہیں۔جس میں لاکھوں روپے مالیت کی کرنسی بر آمد ہوچکی ہے ۔ایف آئی اے کے مطابق یہ ٹریول ایجنٹ عمرہ زائرین اور حج پیکج لینے والوں کےلئے ہوٹل بکنگ ،ٹرانسپورٹ کے خرچوں اور دیگر اخراجات کے لئے سالانہ لاکھوں ڈالرز کی حوالہ ہنڈی کر رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول ہر سال ٹریول ایجنٹ عمرے اور حج کی مد میں سعودی عرب جانے والے عمرہ زائرین اور حجاج سے وصول کردہ پیکج کی مد میں کم سے از کم500ملین ڈالرز کا خطیر زرمبادلہ قانونی بینکنگ چینل یا انٹر بینک کے ذریعے سعودی کمپنیوں کو بھجوانے کے بجائے حوالہ کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ٹرانزیکشنز میں حکومت کو بھاری ٹیکس سے دوچار کیا جاتا ہے۔ بلکہ زرمبادلہ کی یہ مالیت آن ریکارڈ نہ ہونے اور دستاویزی نے ہونے کی وجہ سے منی لانڈرنگ اور بلیک منی کی منتقلی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ اسی بنا پر بعض بڑی ٹریول ایجنسی کی کمپنیوں کے مالکان حوالہ اور ہنڈی کے دھندے میں ملوث ہوگئے۔ اور انہوں نے حوالہ اور ہنڈی کا اتنا بڑا نیٹ ورک قائم کردیا کہ اس سے ہزاروںافراد مستفید ہونے لگے۔
اس مقصد کے لئے ایسی ٹریول ایجنسیوں کے مالکان نے علیحدہ سے دفاتر بنا کر قائم کرنا شروع کیا ایسا ایک بڑا نیٹ ورک ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی گزشتہ برس کی جانے والی کارروائی میں بے نقاب ہوچکا ہے تاہم اثر رسوخ استعمال کرکے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔اس معاملے کی سب سے پہلے کچھ عرصہ قبل نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی جانب سے ایف آئی اے کی بعض انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں نشاندہی کی گئی ۔اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹس میں حوالہ کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک بھجوانے والے مختلف نیٹ ورک کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں ملک بھر میں پھیلے ہزاروں ٹریول ایجنٹوں کی جانب سے سالانہ عمرہ اور حج کی مد میں سعودی کمپنیوں کو اربوں روپے کا قیمتی زرمبادلہ حوالہ کے ذریعے بھجوانے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ۔انہی سفارشات میں اس نیٹ ورک کے خاتمے کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی پالیسی بنانے پر زور دیا گیا۔ جس کے لئےNational Counter Terrorism Authorityمیں شامل ایف آئی اے کے نمائندوں کی جانب سے سفارشات مرتب کرنے اور فوری کارروائی کرنے کی تجویز دی گئی ۔
اہم ذریعے کے بقول حالیہ برسوں میں ہر سال عمرہ کی مد میں اوسطاً13سے 15لاکھ پاکستانی شہری ملک بھر سے عمرہ کی ادائیگی کے لئے ملک بھر کی ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے پیکج حاصل کرکے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اسی طرح سالانہ تقریباً 1لاکھ 75ہزار سے 1لاکھ 80ہزار تک پاکستانی شہری ہر سال حج کے مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جاتےرہے ہیں۔ ان تمام شہریوں کو پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ تقریباً اییک لاکھ سے 5لاکھ روپے تک کے مختلف پیکج آفر کرتے ہیں۔ جن میں ٹکٹ ،ویزے کی فیس اور سعودی عرب میں رہائش اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ مذکورہ رقم پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ شہریوں سے وصول کرلیتے ہیں۔ لیکن ان پاکستانی ٹریول ایجنٹوں کو اس میں سے اپنا منافع رکھنے کے بعد ان سعودی عرب کی کمپنیوں کو ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ جن کے توسط سے پاکستانی ٹریول ایجنٹ سعودی حکام سے ویزے حاصل کرتے ہیں ۔
یہ سعودی کمپنیاں سعودی حکام سے منظور شدہ ہوتی ہیں جنہیں مخصوص کوٹہ ملتا ہے اور اسی کوٹے میں سے یہ سعودی کمپنیاں پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ٹریول ایجنٹوں کو کوٹہ فراہم کرتی رہی ہیں۔ اس طرح سے پاکستانی ٹریول ایجنٹ ان سعودی عرب کی کمپنیوں کے بزنس پارٹنر سمجھتے جاتے ہیں۔ جس کے لئے انہیں ہر سال فارن کرنسی میں ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ تاہم انتہائی دلچسپی اور حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں کرنے کے لئے وفاقی حکومتوں ،وزارت مالیات اور وزارت مذہبی امور کی جانب سے کی جانے والی بدترین غفلت اور نااہلی کے سبب کوئی ایسا نظام نہیں بنایا گیا۔ جس کے تحت پاکستان میں کام کرنے والے ٹریول ایجنٹ ادائیگیاں مکمل قانونی بینکنگ چینل کو استعمال کرتے ہوئے کرسکیں اور زرمبادلہ کی ترسیل کے لئے ہر سال حوالہ کے نیٹ ورک کو ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس ضمن میں اب تک کئے جانے والے ایک تحقیقاتی سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ کراچی سمیت ملک بھر میں موجود ٹریول ایجنٹوں کی اکثریت حوالے کے ذریعے ہی اپنی ادائیگیاں بیرون ملک ارسال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو ٹریول ایجنٹ کمپنیاں خود تسلیم بھی کرتی ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے اس کے لئے وفاقی حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ جنہوں نے اب تک اس ضمن میں کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی ۔
اس ضمن میں ٹریول ایجنٹوں کی ایسوسی ایشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً عمرہ اور حج کی مد میں 17لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی شہری سعودی عرب جاتے ہیں جن کے لئے ایک لاکھ سے 5لاکھ تک کے اکانومی سے لے کر اسٹار اور سپر اسٹار تک کے پیکج ہوتے۔ گزشتہ برس بھی 1لاکھ 79ہزار شہری حج کے لئے گئے تھے تاہم بعد ازاں یہ تعداد ایک لاکھ 84ہزار ہوگی کیونکہ 5ہزار کا کوٹے میں اضافہ کیا گیا ۔اسی طرح سے عمرہ کے لئے گزشتہ برسوں میں فی برس اوسطاً 15لاکھ سے زائد شہری سعودی عرب جاتے رہے ہیں۔ ٹریول ایجنٹوں کو اچھی خاصی ادائیگیاں ان سعودی کمپنیوں کو ہر سال کرنی ہوتی ہیں جن کے ساتھ یہ ٹریول ایجنٹ کام کرتے ہیں۔یہ ادائیگیاں حوالہ کے ذریعے کرنے کے حوالے سے ذرائع کہنا تھا کہ ہر سال اسی طریقے سے ادائیگیاں ہوتی چلی آئی ہیں۔
اس ضمن میں ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک تمام ٹریول ایجنٹ حوالہ کے ذریعے ہی اپنی ادائیگیاں کر رہے ہیں ۔ متعدد ٹریول ایجنٹوں کے خلاف ایف آئی اے کیسوں میں جب تفتیش میں ریکارڈ دیکھا گیا کسی نے بھی انوائس منگوا کر ادائیگیاں نہیں گئیں ۔تحقیقات میں مزید انکشافات ہوئے ٹریول ایجنٹ چونکہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اور ان کے عمرے اور حج کے لئے جمع ہونے والے پاسپورٹ بھی گنتی کی بڑی منظورہ شدہ ٹریول ایجنسیوں کی جانب سے سعودی ایمبیسی سے حاصل کردہ ڈراپ باکس میں ہی جمع کئے جاتے ہیں۔ اس لئے بعض بڑی ٹریول ایجنسیوں کے مالکان نے حوالہ کا کام خود کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نیٹ ورک سے جان چھڑا کراپنا بندوبست خود کیا جائے اور منافع بھی کمایا جائے۔
چونکہ ہر ٹریول ایجنٹ انفرادی طور پر حوالہ کا کام نہیں کرتا ۔اس لئے جب ٹریول ایجنٹوں نے دیکھا کہ ان کے اپنے ہی ٹریول ایجنٹوں نے حوالہ کا نیٹ ورک قائم کیا ہے تو ٹریول ایجنٹوں کی اکثریت کی جانب سے ان بڑے ٹریول ایجنٹ کمپنیوں کے ذریعے لگ بھگ ہر سال 200ملین ڈالرز کے مساوی قیمتی زر مبادلہ سعودی عرب حوالہ کے ذریعے بھجوانا شروع کردیا۔اس نیٹ ورک کا انکشاف اس وقت ہوا جب کچھ عرصہ برس ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی جانب سے حوالہ کے نیٹ ورک کی اطلاع پر اسٹاک مارکیٹ میں کارروائی کی گئی تو وہاں پر ایک دفتر میں بڑی ٹریول ایجنسی کے مالکان مل کر حوالے کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ اس دفتر میں انہوں نے کئی کمپیوٹرز اور ملازم رکھے ہوئے تھے۔ تاہم اس کام کو ٹریول ایجنسی کے کام سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا ۔بعد ازاں ان مالکان کے خلاف منی لانڈرنگ کی دفعات مقدمات میں شامل کرکے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ ہوا تاہم اچانک اثر رسوخ کام آگیا اور اس کارروائی کو دبا دیا گیا تاہم تریول ایجنٹوں کے حوالے کا نیٹ ورک اب بھی فعال ہے ۔