رپورٹ: عمران خان

اسلام آباد: دبئی کے گولڈن کارڈز رکھنے والے اور کئی برسوں سے متحدہ عرب امارات کی خصوصی دستاویزات پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف کروڑوں درہم کی خفیہ بیرون ملک سرمایہ کاری،ٹیکس چوری پر منی لانڈرنگ کی کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ان پاکستانی شہریوں کی شناخت کر لی ہے جنہوں نے متحدہ عرب امارات (بالخصوص دبئی) میں 20 لاکھ اماراتی درہم یا اس سے زائد مالیت کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں، مگر ان اثاثوں کو نہ تو اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیا اور نہ ہی ان سے حاصل ہونے والی آمدنی یا سرمایہ منافع پر انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان کے خلاف اب پاکستان میں ٹیکس قوانین اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بڑے پیمانے پر کارروائی جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق، ایف آئی اے نے یہ معلومات اپنے امیگریشن ڈیٹا سے حاصل کی ہیں، جہاں دبئی کے ‘گولڈن ویزا’ ہولڈرز کی تمام تفصیلات اسکین ہوکر محفوظ ہوتی ہیں۔ دس سالہ ریزیڈنسی پر مبنی یہ اقامہ اُن افراد کو جاری ہوتا ہے جنہوں نے کم از کم 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات میں کی ہو۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ گولڈن ویزا میں شامل معلومات—جن میں پاسپورٹ نمبر، نام، پراپرٹی اونر کے طور پر پیشہ، اور خود اسپانسر کے طور پر درج تفصیلات شامل ہیں—سے واضح طور پر ان افراد کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ان افراد کی پاکستانی آمد و روانگی کے وقت امیگریشن کاؤنٹرز پر ریکارڈ خود بخود اپڈیٹ ہو جاتا ہے۔

ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بیشتر پاکستانی سرمایہ کاروں نے بیرونِ ملک بنائی گئی ان جائیدادوں کو نہ تو ایف بی آر میں اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیا اور نہ ہی ان اثاثوں سے حاصل شدہ کرایہ یا منافع کو انکم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، غیر ملکی اثاثوں پر عائد کیپٹل ویلیو ٹیکس (CVT) کی ادائیگی بھی نظر انداز کی گئی ہے۔

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک باقاعدہ ٹیکس معاہدہ موجود ہے، جس میں معلومات کے تبادلے کی شق بھی شامل ہے، تاہم اب تک اماراتی حکام نے اس حوالے سے پاکستانی ٹیکس اداروں کو معلومات کی فراہمی میں کوئی خاص تعاون نہیں کیا۔

اسی طرح آٹومیٹک انفارمیشن ایکسچینج (AEOI) کے عالمی نظام میں شامل ہونے کے باوجود، پاکستانی شہری اس نظام سے بچ نکلتے ہیں کیونکہ وہ بینک اکاؤنٹس کھولتے وقت پاکستانی پاسپورٹ کے بجائے اماراتی اقامہ استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی اصل شہریت چھپ جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق، غیر رسمی ذرائع جیسے ہنڈی/حوالہ کے ذریعے پیسہ منتقل کرنا ان افراد کے لیے نہ صرف آسان بلکہ سستا بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قانونی چینلز سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف پاکستانی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ FATF جیسے عالمی اداروں کی نظر میں پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے چند پاکستانیوں نے ماضی میں حکومت کی جانب سے دی گئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت اپنے غیر ملکی اثاثے ظاہر کیے، اور باقاعدہ ٹیکس بھی جمع کروایا۔ مگر اب وہ افراد خود کو پچھتاوے کی حالت میں پاتے ہیں کیونکہ وہ لوگ جو اثاثے ظاہر کرنے سے بچ گئے، آج تک حکومتی شکنجے سے باہر ہیں۔

ایف آئی اے اور ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس قوانین میں اب خاصی سختی کی جا چکی ہے۔ غیر ملکی اثاثوں کے کیسز میں پانچ سال کی ٹائم بار کی رعایت بھی ختم کر دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب کسی بھی وقت ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ایف بی آر نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ بیرون ملک سرمایہ کاری اگر قانونی ذرائع سے کی جائے اور جائز ٹیکس فری آمدنی ہو، تو ٹیکس پلاننگ کے تحت اسے ظاہر کر کے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ متعدد ذمہ دار ٹیکس دہندگان اس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔