رپورٹ : عمران خان
کراچی: اربوں روپے مالیت کی منشیات(آئس) اسمگلنگ میں سابق سیکریٹری خزانہ کی کمپنی ملوث نکلی۔مذکورہ سابق سینئر بیورو کریٹ کسٹمز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی مشترکہ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ افسر کے بیٹے نے کمپنی کا نام اور آئی ڈی منشیات اسمگلروں کو استعمال کے لئے اپنی رضامندی کے ساتھ دی تھی۔سب سے افسوسناک اور سنگین پہلو یہ سامنے آیا کہ منشیات کی یہ اسمگلنگ پاکستان کی دنیا بھر میں پہچان بننے والے یعنی گلابی نمک ( ہمالین سالٹ ) کی آسٹریلیا ءبر آمد کی آڑ میں کی گئی ۔جس سے پاکستان کی اس بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ کو بدنا م کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان سے آسٹریلیا ءکو بھجوائی جانے والی گلابی نمک کی کھیپ میں بھاری مقدار میں آئس منشیات اسمگل کرنے کے اسکینڈل کی تحقیقات کسٹمز حکام کی جانب سے ایک اعلیٰ سطح کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) بنا کر مکمل کی گئیں ۔ان تحقیقات کی روشنی میں سامنے آنے مرتب کی گئی رپورٹ کی بنیاد پر اس اسکینڈل پر بننے والے مقدمے کا حتمی چالان عدالت میں پیش کیا گیا ۔

یہ واردات اس وقت پکڑی گئی جب گلابی نمک کی کھیپ ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پورٹ قاسم ایکسپورٹ سے آسٹریلیا ءبھجوانے کے لئے کلیئر کی جا رہی تھی ۔اس معاملے میں جب اعلیٰ سابق بیوروکریٹ کا تعلق سامنے آیا تو متعلقہ کسٹمز حکام محتاط ہوگئے اور مختلف عناصر کی جانب سے دباﺅ ڈال کر اس معاملے کو دبانے کی کوشش شروع کردی گئی ۔حیرت انگیز طور پر بعد ازاں جب اس اسکینڈل پر مقدمہ درج کیا گیا تو اس میں صرف کلیئرنگ ایجنٹ اور ٹرانسپورٹر وغیرہ کو نامزد کیا گیا ۔جبکہ کمپنی کے مالکان اور اس کے پس منظر میں موجود اصل اسمگلروں کے حوالے سے حقائق مقدمہ کا حصہ ہی نہیں بنائے گئے تھے ۔
اس ضمن میں موصول ہونے والی معلومات کے مطابق سال 2022کے جولائی کے مہینے میںکراچی کے علاوہ ڈیفنس فیز فائیو اور میراں شاہ روڈ محمد علی سوسائٹی میں دفاتر رکھنے والی کیو ٹینی ٹی (QTINITY) فوڈ سپلائی چین کمپنی کی جانب سے ہمالیہ گلابی نمک کی کھیپ آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں موجود کمپنی Karadeniz SPSکو بر آمد کی جا رہی تھی ۔جس کے لئے کھیپ کو کلیئر کرنے کے لئے گڈز ڈکلریشن کسٹم وی بوک سسٹم میں داخل کی گئی۔ اور اس کے لئے میسرز الکاسب(Al Kasib)کلیئرنگ ایجنٹ کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔
تاہم چونکہ اس طرح کی نمک کی کھیپوں سے ماضی میں بھی ہیروئن اور آئس جیسی منشیات برآمد ہوچکی ہیں۔ اس لئے اس کھیپ کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے احکامات کلکٹر کسٹم ایکسپورٹ اور ایڈیشنل کسٹم کلکٹر ایکسپورٹ پورٹ قاسم کی جانب سے جاری کئے گئے۔ جس پر ایگزامنگ افسر شہزاد بھٹی نے اسسٹنٹ کلکٹر رابیل کھوکھر کے کی سربراہی میں فزیکل جانچ پڑتال کی جس کے نتیجے میں اس کھیپ میں چھپائی گئی 47کلو گرام سے زائد مہلک اور مہنگی منشیات آئس (ایم فیٹامائن ) بر آمد ہوئی جسے ضبط کرلیا گیا۔
مذکورہ کیس میں اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جس میں بر آمدکنندہ کمپنی کیو ٹینی ٹی (QTINITY) فوڈ سپلائی چین کمپنی، میسرز الکاسب(Al Kasib)کلیئرنگ ایجنٹ کمپنی اور آسٹریلوی کمپنی کو نامزد کرکے تفتیش شروع کی گئی ۔بعد ازاں اسی کیس میں دو ملزمان فدا محمد اور طحہ حسین کو گرفتار کرلیا گیا ۔جوکہ کلیئرنگ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ملزم طحہٰ حسین کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستان کسٹم ایجنٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر واسق حسین کا بیٹا تھا۔اس کیس کی خاص بات یہ ہے کہ بر آمد کنندہ کمپنی کیو ٹینی ٹی (QTINITY) کا ڈیٹا حاصل کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ وہ سابق بیوروکریٹ اور کسٹم سابق ممبر آپریشن منیر قریشی کے بیٹے حمیر قریشی کی تھی جس کے بعد ہلچل مچ گئی۔
منیر قریشی ہی وہ افسر تھے جن کے دورمیں افغان ٹرانزٹ کے ہزاروں کنٹینرز غائب ہونے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا ۔جس میں درجنوں کسٹم افسران معطل ہوئے یا نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔منیر قریشی 1990اور 2000کی دہائی میں کسٹم میں کلکٹر ،چیف کلکٹر اور ممبر کے عہدوں پر کام کرچکے ہیں ان کی زیادہ سروس کراچی میں رہی ہے۔منیر قریشی بعد ازاں 2012میں وفاقی سیکرٹری برائے صنعت وتجارت کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ایک سابق اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ان کے درجنوں ماتحت افسران اب بھی ملک بھر میں ایڈیشنل کلکٹر ،کلکٹر اورچیف کلکٹرز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کا اب بھی ادارے میں اچھا خاصہ اثر رسوخ تھا ۔
مذکورہ مقدمہ پر کارروائی شروع ہونے کے بعد مبینہ طور پر اس وقت صورتحال دلچسپ ہوگئی جب مختلف عناصراس کودبانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ افسران کے پاس پہنچنے لگے ۔اس دباﺅ کا فوری نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ابتدائی طور پر کمپنی مالکان کو مقدمہ میں نامزد نہیں کیا گیا ۔جبکہ اس مقدمہ میں اگلے کئی ماہ تک عبوری چالان پیش نہیں کیا جاسکا۔ جسے خلاف قانون روک کر رکھا گیا کہ اس میں منیر قریشی کے بیٹے حمیر قریشی کا نام شامل کیا جائے یا نہیں ۔حالانکہ مقدمات میں عبوری چالان قوانین کے تحت 14روز میں پیش پیش کیا جانا ہوتا ہے۔تاہم بعدازاں 2022کے آکر میں اس دباﺅ کو قبول نہ کرتے ہوئے سابق کلکٹر ایکسپورٹ پورٹ قاسم اور ایڈیشنل کلکٹر کی ہدایات پر تفتیشی افسر نے حمیر قریشی کو نامزد کرکے چالان پیش کروادیا۔
اطلاعات کے مطابق عبوری چالان پیش کرنے کے بعد بھی اس معاملے پر از سر نو تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا جس کے بعد ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کی ہدایات پر اس وقت کے چیف کلکٹر کراچی انفورسمنٹ اور کلکٹر پورٹ قاسم ایکسپورٹ کی ٹیم کے ساتھ ہی کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے اعلیٰ افسران کی ٹیم کو شامل کرکے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تاکہ اصل حقائق کو سامنے لا کر اس اسکینڈل کے مقدمہ پر حتمی چالان پیش کیا جاسکے۔اس ٹیم کی جانب سے تمام پہلوﺅں سے ڈیٹا حاصل کرکے تفتیش کی جس میں کسٹمز افسران اور کمپنی مالکان کے ساتھ ہی کلیئرنگ ایجنٹ ،ٹرانسپورٹرکے ساتھ پنجاب سے نمک بک کروانے والوں کے بیانات لئے گئے ۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والی اس تفتیش کے بعد بالآخرمشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کردی ۔اس رپورٹ میں 4ملزمان کو مرکزی ملزمان کی حیثیت سے شامل کیا گیا جس میں منیر قریشی کے بیٹے حمیر قریشی بھی شامل تھے ۔اس کے علاوہ نمک کی کھیپ کی بکنگ کرکے کراچی کے گودام میں پیکنگ کروانے والا مرکزی ملزم اور اصل ایکسپورٹر کے ساتھ دیگر دو ملزمان نامزد کئے گئے۔منیر قریشی کے بیٹے کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ اس نے نمک کی کھیپ وہ نہیں بھجوا رہے تھے تاہم انہوں نے بر آمد کنندہ کی حیثیت سے اپنی کمپنی کا نام اور آئی ڈی استعمال کرنے کے لئے دی جس کے عوض کمیشن لینا مقصد تھا تاہم انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ نمک کی آڑ میں منشیات بھجوائی جائے گی ۔