رپورٹ: عمران خان
کراچی: بندرگاہوں سے آف ڈاک ٹرمینل تک سامان کی ترسل کے دوران اربوں روپے کی اسمگلنگ اور ٹیکس چوری اسکینڈل میں کسٹمز انٹیلی جنس اور کسٹمز انفورسمنٹ کی جانب سے علیحدہ علیحدہ بنائے گئے کیسوں کی تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آگئی ۔

تحقیقاتی ٹیموں نے بحریہ آف ڈاک ٹرمینل تک انٹر پورٹ موومنٹ کے دوران کنٹینرز کی سیل توڑ کر اربوں روپے مالیت کا پر تعیش سامان اسمگل کرنے کے اسکینڈل کی ایسے ثبوت بھی حاصل کرلئے۔ جن سے انکشاف ہوا کہ اس بدترین ٹیکس چوری اور اسمگلنگ اسکینڈل میں در آمد کنندگان سرمایہ کاروں کے ساتھ بحریہ آف ڈاک ٹرمینل حب ریور روڈ کے افسران براست راست ملوث رہے جو کہ جعلسازی کی سہولت کاری اور پردہ پوشی کے لئے بھاری رقوم اپنے بینک اکاﺅنٹس کے ذریعے اور نقد وصول کرتے رہے۔

تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کراچی پورٹ کے ٹرمینل ایس اے پی ٹی ،کے آئی سی ٹی اور پی آئی سی ٹی پر اترنے کے بعد جب ان کنٹینرز کو بحریہ ٹرمینل حب ریور روڈ لے جایا جاتا تھا تو یہ سفر اوسطاً10گھنٹوں میں طے کیا جاتا تھا جس کے ثبوت کے پی ٹی گیٹ آﺅٹ اور بحریہ ٹرمینل کے گیٹ ان کے ریکارڈ سے تصدیق کرکے میچ کر لئے گئے ہیں حالانکہ یہ سفر بہت آہستہ بھی کیا جائے تو 2گھنٹے سے زائد وقت کا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ درجنوں کنٹینرز گھنٹوں راستے میں گودام میں روک کر سامان تبدیل کیا جاتا رہا ۔کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے کیس میں تحقیقاتی ٹیم نے انکوائری کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹرمینل کے 4افسران کے ساتھ در آمد کنندہ کمپنی کے نمائندگان ،کلیئرنگ ایجنٹوں اور کسٹمز بانڈڈ کیریئرز کمپنیوں کے مالکان سمیت 11ملزمان کو شامل تفتیش کیا۔

موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ پالتو جانوروں کے لئے گھروں پر استعمال ہونے والی در آمد شدہ ریت ( کیٹ لٹرسینڈ) کی آڑ میں درجنوں کنٹینرز میں اربوں روپے مالیت کے لیپ ٹاپ،موبائل،الیکٹرانک آئٹم،برانڈڈ کاسمیٹکس ،گھڑیاں ،پرس،خواتین کے بیگ ،بیلٹ ،بکل اور دیگر پرتعیش سامان مس ڈکلریشن کے ذریعے اسمگل کرنے کے اسکینڈل میں کسٹمز انٹیلی جنس نے ملوث ملزمان کے خلاف انکوائری میں ثبوت اور شواہد کا سراغ لگانے کے بعد مقدمہ درج کیا ۔

اس مقدمہ میں سامان در آمد کرنے کے لئے استعمال ہونے والی سامی ٹریڈرز نامی کمپنی کا مالک محمد احسان کو نامزد کیا گیا ۔ جو کہ ایف بی ایریا کے علاقے النور سوسائٹی کا رہائشی ہے جبکہ اس کمپنی کا دفتر بھائیانی شاپنگ سینٹر نارتھ ناظم آباد کی بلڈنگ میںساتویں منزل پر قائم ہے۔ اسی مقدمہ میں سامی ٹریڈرز کمپنی کے نام پر آنے والے سامان کے تمام معاملات کمپنی نمائندہ کی حیثیت سے چلانے والا ملزم عباد میمن بھی مرکزی ملزم کی حیثیت سے شامل تفتیش کیا گیا جوکہ آصف آرکیڈ بہادر آباد کا رہائشی ہے۔

اس کے علاوہ عباد میمن کے ساتھ ہی سامی ٹریڈرز کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کرنے والا ملزم وقار حسن جوکہ جناح گارڈن ماڈل کالونی ملیر کا رہائشی ہے اور سامی ٹریڈ کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے عباد میمن اور وقار حسن کی ہدایات پر ٹرمینل انتظامیہ اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ دستاویزی معاملات نمٹانے والے ملزمان علی اصغر اور ملزم محمدغفران ہیںبھی کیس میں نامزد کئے گئے ہیں ۔تحقیقات میں عباد میمن اور وقار نے انکشاف کیا کہ وہ ماہانہ لاکھوں روپے بحریہ ٹرمینل کے منیجر آپریشن محمد فیاض کو دیا کرتے تھے ۔کیس میں بحریہ آف ڈاک کنٹینرز ٹرمینل حب ریور روڈ کا آپریشنل منیجر محمد فیاض ،بحریہ آف ڈاک کنٹینرز ٹرمینل حب ریور روڈ کا ملازم سلمان خان ،بحریہ آف ڈاک کنٹینرز ٹرمینل حب ریور روڈ کا سی ایس ڈی منیجر ہاشم اور بحریہ آف ڈاک کنٹینرز ٹرمینل حب ریور روڈ کا لائن کوآرڈی نیٹرمحمد افتخاربھی زیر تفتیش ہیں ۔

اسی طرح سے در آمد شدہ سامان میں مس ڈکلریشن کرکے اسمگل کئے گئے قیمتی الیکٹرانک اور برانڈڈ پرتعیش سامان کو ڈمپ کرنے کے لئے استعمال ہونے والے گودام کا مالک ذیشان قمرعرف دانش جو کہ نیشنل سیمنٹ ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ہے کے ساتھ ہی جعلسازی سے کلیئر کئے گئے سامان کے کنٹینرز کراچی پورٹ سے بحریہ ٹرمینل تک پہنچانے کے لئے استعمال ہونے والی کسٹمز بانڈڈ کیریئر ٹرانسپورٹ کمپنی سرحد لاجسٹک کا مالک محمد ارشد بھی شامل ہے جو کہ ڈیفنس خیابان رضوان کا رہائشی ہے۔

ملزمان کے بیانات سے معلوم ہوا کہ کہ مذکورہ بانڈڈ کیریئر کی خدمات غوثیہ ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک اور کے ڈی اے آفیسر ہاﺅسنگ سوسائٹی گلشن اقبال کا رہائشی عبدالسلام کاٹھ کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں جوکہ مقدمہ میں نامزد کردیا گیا ہے۔ اربوں روپے مالیتکے اس اسمگلنگ نیٹ ورک کے خلاف کسٹمز انفورسمنٹ اور کسٹمز انٹیلی جنس نے اب تین تین مختلف کارروائیوں میں ایسے تین کنٹینرز ضبط جن میں کیٹ لٹر سینڈ ظاہر کرکے کروڑوں روپے مالیت کا الیکٹرانک سامان کلیئر کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اسی طرح اس منظم اب تک پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل( پی آئی سی ٹی )، کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل( پی آئی سی ٹی ) اور ساو¿تھ ایشیائ پورٹ ٹرمینل( ایس اے پی ٹی ) سمیت دیگر سے 40 اسی نوعیت کے سامان سے بھرے کنٹینر کلیئر کرواچکے ہیں۔جن میں سے 22کنٹینر ایس اے پی ٹی ٹرمینل ،15کنٹینرز کے آئی سی ٹی ٹرمینل اور 3کنٹینرز پی آئی سی ٹی ٹرمینل سے بحریہ آف ڈاک ٹرمینل کے لئے نکلے۔اس آف ڈاک ٹرمینل کو چلانے والی کمپنی میں 51فیصد شیئرز کے علاوہ 49فیصد شیئرز 8نجی لاجسٹک اور شپنگ کمپنیوں کے مالکان کے ہیں جن میں جی ایم لاجسٹک ،حسین ٹریڈنگ ایجنسی،سی گوڈل پرائیویٹ لمیٹڈ ،بلیو اوشین اسکائی ورس،سوئفٹ لاجسٹک،یونائٹیڈ لاجسٹک،کنڈی سروسزاور ٹریڈ لنک انٹر نیشنل شامل ہیں ۔

اسی اسکینڈل میں کسٹمز انفورسمنٹ کراچی کی جانب سے بنائے گئے کیس سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر طارق روڈ کے مصطفی سینٹر میں دفتر رکھنے والی کمپنی گریس شپنگ اینڈ لاجسٹک (Grace Shipping & Logistics)کے ساتھ در آمد کنندہ کمپنی سامی ٹریڈرز(Sami Traders)کے مالکان کے علاوہ گریس شپنگ اینڈ لاجسٹک کمپنی کے عہدیدار دانش علی ،علی اصغر ،محمد نعیم،سلمان خان ولد نواب خان ،گلستان جوہر کی ورکس ہاﺅسنگ سوسائٹی کے رہائشی عبدالسلام کاٹھ اور نعمت علی کو کیس میں نامزد کیا گیا ۔

اطلاعات کے مطابق اس اسکینڈل کا انکشاف اس وقت ہوا جب کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کی جانب سے خفیہ اطلاع ملنے پر اے ایس او کی ٹیم نے کراچی پورٹ سے بحریہ آف ڈاک ٹرمینل کے لئے جانے والے کنٹینرز کو راستے میں اس وقت رنگے ہاتھوں چھاپہ مار کر ضبط کرلیا گیا۔ جب اس میں سے الیکٹرانک کا سامان نکالا جا رہا تھا ۔اس کنٹینرز کو در آمدی ریت ظاہر کرکے کلیئر کروایا جا رہا تھا اسی طرح سے دو مزید کنٹینرز کراچی پورٹ پر ایسے موجود تھے۔ جن میں در آمد شدہ ریٹ ظاہر کرکے کلیئر کروانے کے لئے انہیں بحریہ آف ڈاک ٹرمینل کی طرف لانے کا کا پروسس ابھی زیر تکمیل تھا ۔تاہم ان میں سے ایک کنٹینر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی ٹیم نے اطلاع ملنے پر بلاک کرکے ضبط کر لیا۔ جبکہ دوسرے کنٹینر کو بھی کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کی ٹیم نے بلاک کرکے چھان بین کے بعد ضبط کیا ۔ان دونوں کنٹینرز میں سے بھی ریت کے بجائے الیکٹرانک کا سامان بر آمد ہوا۔